Subscribe

Theme images by Storman. Powered by Blogger.

About

Top Ad 728x90

Top Ad 728x90

Featured Post Via Labels

Top Ad 728x90

Featured Slides Via Labels

Featured Posts Via Labels

More on

Popular Posts

Blog Archive

Popular Posts

Follow us on FB

Tuesday 27 February 2018

جیکب زوما سے نواز شریف تک

جنوبی افریقہ کے غریب گھرانے میں پیدا ہونے والا سیاہ فام جیکب زوما جس نے 17سال کی عمر میں سیاست میں قدم رکھا اور افریکن نیشنل کانگریس میں شامل ہوگیا۔ سیاست میں آیا تو پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ اس پُرخار سفر میں اسے کئی بار جیل بھی جانا پڑا، جلا وطنی کے طور پر ملک سے باہر رہا۔ سیاست اور جیل کی آنکھ مچولی کھیلتے کھیلتے یہ 2007 میں اپنی جماعت کا صدر بن گیا، پارٹی صدر بنتے ہی یہ متنازعہ سیاستدان بن کر سامنے آیا۔ اس پر نسلی فسادات کے الزامات لگے لیکن یہ الزامات کی صفوں کو چیرتے ہوئے 2009 میں ملک کا سربراہ بن گیا۔

صدارت کا عہدہ بھی کوئی حسین لمحات لیے استقبال کو نہیں آیا بلکہ اس دور میں بدعنوانی کے الزامات نے گھیرلیا۔ کرپشن کے ساتھ ساتھ جنسی زیادتی کے الزامات لگے، اپوزیشن نے انہیں پورے دور حکومت میں سکھ کا سانس نہیں لینے دیا۔ ملک میں چلنے والی زبردست تحریک کے نتیجے میں انہوں نے چند روز قبل اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں بطور سیاستدان اپنا کردار ادا کرتا رہوں گا۔ انہوں نے کوئی پیار سے عہدہ نہیں چھوڑا بلکہ عوامی دباؤ کے نتیجے میں زبردستی لیا گیا ہے۔ ان کی جگہ نئے صدر نے ملک کا اقتدار سنبھال لیا ہے۔

پاکستان میں بھی آج کل صورتحال کچھ ایسی ہی ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف جنہیں حال ہی میں ایک بار پھر نااہل قرار دیتے ہوئے پارٹی صدارت سے ہٹایا گیا ہے، جنرل ضیاء الحق شہید کے دور میں سیاست سے روشناس ہوئے، انہی کے زیر سایہ تربیت ہوئی۔ اس دور میں لمبے عرصے تک پنجاب حکومت میں شامل رہے۔ کچھ عرصہ پنجاب کی صوبائی کونسل کا حصہ رہنے کے بعد 1981 میں وزیر خزانہ پنجاب بن گئے۔ آمریت کے زیرِ سایہ 1985 میں ہونے والے غیرجماعتی انتخابات میں قومی اور صوبائی نشستوں پر بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔

9 اپریل 1985 کو وزیراعلیٰ پنجاب بنے، 31 مئی 1988ء کو جنرل ضیاء نے جونیجو حکومت کو برطرف کردیا تاہم میاں صاحب کو بطور نگران وزیراعلیٰ برقرار رکھا۔ جنرل ضیاء نے ایک بار نواز شریف کو اپنی عمر لگ جانے کی بھی دعا دی۔

1988 میں پیپلز پارٹی کو شکست دینے کےلیے آئی جے آئی بنی۔ پیپلز پارٹی تو نہ ہاری لیکن پنجاب کی وزارت اعلیٰ ایک بار پھر میاں صاحب کے حصے میں آگئی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوئی تو 1990 میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں پہلی بار میاں صاحب وزیراعظم بن گئے۔ تاہم اپنی پانچ سال کی مدت پوری نہ کرسکے اور انہیں اس وقت کے صدر نے ان کے عہدے سے فارغ کردیا۔ اگرچہ ملک کی عدالتِ عظمیٰ نے آئینی مقدمے کے بعد عہدے پر بحال کردیا لیکن جولائی 1993 میں انہیں صدر کے ساتھ اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا۔

1997 میں ایک بار پھر الیکشن میں کامیاب ہوکر مسند اقتدار پر براجمان ہوئے لیکن یہ بہت عارضی ثابت ہوا اور دو سال بعد ہی فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے طیارہ سازش کیس کا بہانہ بنا کر چلتا کیا۔ اس بار نواز شریف کی بڑی غلطی فوج سے پنگا تھا۔ اکتوبر 1999 میں نواز شریف نے اس وقت کے فوج کے سربراہ پرویز مشرف کو ہٹا کر نئے فوجی سربراہ کو تعینات کرنے کی کوشش کی۔

کچھ عرصہ جیل میں رکھا گیا، مقدمات چلے اور فوج کے ساتھ ایک خفیہ معاہدے کے بعد سعودی عرب چلے گئے۔ 2006 میں میثاق جمہوریت پر بے نظیر بھٹو سے مل کر دستخط کیے اور فوجی حکومت کے خاتمے کے عزم کا اعادہ کیا۔ 23 اگست 2007 کو عدالت عظمٰی نے شریف خاندان کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے ان کی وطن واپسی پر حکومتی اعتراض رد کرتے ہوئے پورے خاندان کو وطن واپسی کی اجازت دے دی۔ ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد نواز شریف اپنے خاندان کے ہمراہ سعودی عرب کے پرویز مشرف پر دباؤ کے نتیجے میں 25 نومبر 2007 کو لاہور پہنچ گئے۔

2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے واضح اکثریت حاصل کی۔ اس بناء پر وہ تیسری بار وزیراعظم پاکستان کے عہدے پر فائز ہوئے۔

نواز شریف تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھاتے ہی اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف کےلیے متنازعہ بن گئے۔ عمران خان نے تین سال تک دھاندلی کا ڈھنڈورا پیٹا اور چین نہیں لینے دیا۔ نواز شریف حکومت کی بدقسمتی تھی کہ اسی دورانیے میں سانحہ ماڈل ٹاؤن پیش آگیا جس میں 14 افراد قتل اور 90 سے زائد شدید زخمی ہوئے۔ یہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے کارکن تھے۔ انہوں نے اپنے کارکنوں کو انصاف دلانے کےلیے انقلاب مارچ کیا اور عمران خان نے دھاندلی کے خلاف لانگ مارچ۔ شہر اقتدار میں دھرنا ہوا، آرمی چیف کی مداخلت پر وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف سمیت 9 افراد کے خلاف قتل کی ایف آئی آر درج ہوئی۔

یہ معاملہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا کہ پاناما لیکس کے ذریعے شریف خاندان کی آف شور کمپنیوں کا پول کھل گیا۔ اپوزیشن نے خوب واویلا کیا، وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں معاملہ حل کرنے کا اعلان کیا لیکن حکومتی سرد مہری سے ٹی او آرز پر اتفاق نہ ہوسکا اور معاملہ عدالت تک جاپہنچا۔ نوازشریف کو پاناما کیس میں پہلے صرف 2 ججوں نے نااہل قرار دیا اور انہیں موقع دیا کہ وہ اپنے جرائم مان لیں، لیکن نوازشریف نے جے آئی ٹی میں جانے کو ترجیح دی۔

وہاں سے ان کی کرپشن کی ہوشربا داستان سامنے آگئی۔ پھر انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کیا جہاں سے وہ جمعہ کے مبارک دن پانچ صفر سے نااہل قرار پائے۔ پھر وہ اپیل میں گئے اور ایک اور جمعہ کے مبارک دن اپیل میں بھی نااہل قرار دیئے گئے۔ پھر انہوں نے پارلیمنٹ سے ترمیم منظور کروا کر پارٹی صدارت اپنے پاس رکھنے کی کوشش کی اور سپریم کورٹ نے انہیں پارٹی صدارت سے بھی نااہل قرار دے ڈالا۔

جیکب زوما کو اسکارپین (جنوبی افریقہ میں انسدادِ بدعنوانی پر کام کرنے والے ادارے) نے سکون سے نہیں رہنے دیا تو نوازشریف کو نیب اور عدالتوں میں اپوزیشن کے مقدمات چین نہیں لینے دے رہے۔ جنوبی افریقہ کے سابق صدر نے تو ہار مان کراستعفیٰ دے دیا لیکن یہاں کے سابق وزیراعظم ’’میں نہ مانوں‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہوکر خوب بے عزت ہورہے ہیں۔ انہیں بھی اب ضد چھوڑ دینی چاہیے، انہیں بھی اب مان لینا چاہیے کہ میں ناقابل قبول ہوں، پارٹی قیادت کسی کو بھی دے دیں تو وہ قابل قبول بن جائے گا۔ ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) کو صوبائی حکومتوں کے ساتھ وفاق میں بھی اقتدار مل سکتا ہے۔ اگر یہی روش جاری رہی تو پھر صرف ایک مسلم لیگ نہیں بلکہ اردو کے تمام حروفِ تہجی جتنی مسلم لیگیں بن سکتی ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post جیکب زوما سے نواز شریف تک appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2EYZJ9Z

No comments:
Write comments