Subscribe

Theme images by Storman. Powered by Blogger.

About

Top Ad 728x90

Top Ad 728x90

Featured Post Via Labels

Top Ad 728x90

Featured Slides Via Labels

Featured Posts Via Labels

More on

Popular Posts

Blog Archive

Popular Posts

Follow us on FB

Wednesday 31 January 2018

دوغلے رویے آخر کب تک؟

لفظوں کے ہاتھوں میں
آنسوؤں کو پونچھنے کے لیے رومال نہیں

لفظ تو بس ہواؤں میں
بکھر جانے کے لیے ہوتے ہیں

اپنی نظم سے موضوع کا آغازکر رہی ہوں گوکہ یہ نظم مکمل طور پر دینے سے قاصر ہوں مگر یہ چند سطریں بھی موضوع کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیوں لفظ فقط ہواؤں میں بکھر جاتے ہیں۔ روزمرہ زندگی کی مثال لے لیجیے ایک دن میں ہم بے شمار لفظ کہتے ہیں۔ خواتین کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ دن میں بیس ہزار لفظ بولتی ہیں۔ ایک لحاظ سے مردوں کے مقابلے میں تیرہ ہزار الفاظ زیادہ بولتی ہیں، جب کہ مردوں کے لیے کہا جاتا ہے کہ دن بھر میں تقریباً سات ہزار لفظ ان کے استعمال میں آتے ہیں۔

شاید ہی کبھی ہم نے اس بات کو سوچا ہوگا کہ ہم جو لفظوں کا ایک دوسرے سے تبادلہ کرتے ہیں، وہ لفظ توانائی وطاقت کا مظہر ہیں۔ ان کے اندر منفی ومثبت اثر موجود ہے۔ یہ تعمیر بھی کرسکتے ہیں اور تباہ کن بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ لفظ رابطے کا ذریعہ ہیں۔ ہمارے رابطے کس قدر فعال اور مربوط ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہم روزمرہ زندگی میں کس طرح کے الفاظ کا چناؤ کرتے ہیں۔ یہی لفظ ہماری ناکامی اورکامیابی کا وسیلہ بھی بنتے ہیں۔

روزمرہ بولے جانے والے الفاظ آواز و لہروں کے تحرک کا امتزاج ہوتے ہیں۔ لہروں کا یہ تحرک حقائق کو جنم دیتا ہے۔ لفظ ایک لحاظ سے اپنی حقیقت خود تخلیق کرتے ہیں۔

دوسرے لفظوں میں ہمارا ذہن، ان الفاظ کی مدد سے ہماری حقیقت تخلیق کرتا ہے۔ جوگفتگو ہم روزمرہ زندگی میں کرتے ہیں۔ ویسے ہی ہمارے حالات ان الفاظ کے رخ پر سفر کرنے لگتے ہیں۔ منفی لفظوں کے پاس گہری طاقت ہوتی ہے،کیونکہ لفظ ہمارے تصور، یقین، عقائد یا رویوں کی تشکیل کرتے ہیں ۔ان کی طاقت ہمارے جذباتی رویوں کی مرہون منت ہے ۔ جب ہم یہ لفظ سنتے، کہتے یا پڑھتے ہیں تو ہمارا جذباتی ردعمل سامنے آنے لگتا ہے۔ غمگین سطریں پڑھ کر آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں اور لطیفے پڑھ کر بے ساختہ ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔

کوانٹم فزکس نے بہت پہلے طے کردیا تھا کہ ہر چیز محض توانائی ہے۔ اس توانائی کی مختلف لہریں ہیں۔ لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ زندگی توانائی کا بہاؤ ہے۔ جس میں ہماری سوچ، محسوسات اور تصورات کی لہریں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اب طے کرلیجیے کہ روز مرہ زندگی میں ہم کس طرح کی باتیں سنتے ہیں اور وہ باتیں کس طرح ہماری زندگی پر اثرانداز ہوتی ہیں۔

معلومات کے مختلف ذرائع ہیں۔ جن میں پرنٹ، الیکٹرانک و سوشل میڈیا اہمیت کے حامل ہیں۔ اخبارات کی مثال سامنے ہے جن میں سیاسی، معاشرتی اور انفرادی حوالوں سے خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ جن میں اکثریت میں بری خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ جو ہماری سوچ اور ذہن پر ناگوار اثرات مرتب کرتی ہیں۔ وہی خبریں دن بھر ہماری سماجی زندگی میں گردش کرتی رہتی ہیں۔ ان خبروں کے توسط سے ہم شک، خوف اور بے یقینی کو بانٹتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر بھی طرح طرح کی افواہیں گردش کرتی رہتی ہیں۔ فیس بک نے معاشرتی مزاج کو بالکل ہی بدل کے رکھ دیا۔ جس نے انفرادی سوچ اور خودستائشی رویوں کو فروغ دیا۔ جدید تحقیق کے مطابق، تنہائی اور ڈپریشن کا شکار لوگ، زیادہ سوشل میڈیا پر نظر آتے ہیں۔ موبائل سے سیلفی کا جنون بڑھا۔ یہ جنون لوگوں کی زندگیاں نگلنے لگا۔ جس کے لیے کہا جاتا ہے کہ یہ ذات کی محبت کا جنون ہے۔ زیادہ سیلفی لینے والے افراد کسی نہ کسی احساس محرومی یا عدم توجہ کا شکار ہوجاتے ہیں۔

منفی سوچ اور رویے فقط سوشل میڈیا تک محدود نہیں رہے بلکہ یہ الیکٹرانک میڈیا تک پھیلے ہوئے ہیں۔ خبریں محض خبروں تک محدود نہیں رہیں، بلکہ یہ ڈرامائی انداز اختیارکرچکی ہیں۔ جن کا مقصد آگہی دینا کم بلکہ سنسنی خیز لمحوں سے ذہنی افراتفری پیدا کرنے کی کوشش زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ ڈرامے کا عنصر روزمرہ زندگی سے ٹیلی وژن اور سیاسی منظرنامے پر صاف دیکھا جاسکتا ہے۔ معلومات کا ذریعہ کوئی بھی ہو مگر آپ لفظوں کا انتخاب ملاحظہ کیجیے۔ یہ لفظ زیادہ تر شک اور بے یقینی کو جنم دیتے ہیں۔ بی بی سی یا سی این این کے نیوزکاسٹر یا کمپیئرزکو آپ نے یقینی طور پر دیکھا ہوگا۔

ہم کیوں خبروں یا کمپیئرنگ کا بین الاقوامی معیار قائم نہیں رکھ سکتے۔ ویسے تو ہماری زندگی، لباس اور گفتگو جدید دنیا کے مقابلے سے کسی طور کم نہیں ہیں۔ نیوزکاسٹر کا کام خبر دینا ہے ناکہ ڈرامائی انداز اختیار کرنا۔ بالکل اسی طرح اینکرز اور ماڈریٹر کا کردار ہونا چاہیے ۔ اینکرکا مطلب ہے خود اعتمادی اور استحکام عطا کرنا۔ جب کہ ماڈریٹر کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایسا شخص جو بحث مباحثے یا گفتگو میں توازن و غیر جانبداری برقرار رکھ سکے۔ جو لوگوں کی رہنمائی کرے یا انھیں صحیح راستہ دکھا سکے۔ ہمارے ٹی وی چینلز کے اینکرز یا ماڈریٹرز لفظی معنی کے برعکس دکھائی دیتے ہیں۔ حالانکہ یورپ و امریکا میں میڈیا کے مختلف شعبوں میں مناسب تربیت دی جاتی ہے اور انھیں اپنے شعبے کے حوالے سے باخبر رکھا جاتا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ فنون لطیفہ کے ہر شعبے کی مختلف ضروریات اور ترجیحات ہیں۔ کمپیئرنگ، صدا کاری، خبریں پڑھنا ودیگر شعبے انفرادیت کے حامل ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں ہر شعبے کی خاصیت اور خالص پن کو برقرار رکھا جاتا ہے اور اسے مطلب اور تشریح کے حصار سے باہر نہیں آنے دیا جاتا۔ کمپیئر اور نیوز کاسٹرز ادارے کو جوابدہ ہوتے ہیں۔ انھیں اپنی ذاتی رائے، پسند و ناپسند ظاہر کرنے کا اختیار نہیں نہیں دیا جاتا۔

اداروں کا جھکاؤکسی بھی سیاسی پارٹی کی طرف کیوں نہ ہو، مگر انھیں غیر جانبداری سے بات کرنی پڑتی ہے،کیونکہ وہاں پر میڈیا پرسن اپنے شعبے سے کمٹڈ ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ انھیں لفظوں کے ساتھ چہرے کے تاثرات کو بھی ضابطے میں رکھنا پڑتا ہے۔ علاوہ ازیں عوامی سطح پر انھیں ہر مکتبہ فکر کے حامل لوگوں کے جذبات کا احترام کرنا پڑتا ہے۔

میں نے جتنے بھی بحث مباحثے دیکھے ہیں۔ چاہے بی بی سی، سی این این یا باہر کے کسی بھی چینل پر ہوں، ہمیشہ کوئی نہ کوئی حل پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی رائے وگفتگو تہذیب کے دائرے کے اندر ہوتی ہے۔ بحث برائے بحث کا رجحان نہیں ملتا اور نہ ہی میزبان، مہمان سے ہتک آمیز گفتگو کرتے ہیں۔ لفظوں کے بعد لب و لہجہ اہمیت رکھتا ہے۔

ہمارے ہاں چیخ کر بات کرنا کامیابی کی علامت سمجھا جاتا ہے، گفتگو کے دوران ایسے چٹکلے چھوڑے جاتے ہیں کہ اکثر مختلف مکتبہ فکرونظریاتی اختلاف رکھنے والے لوگ آپس میں لڑ پڑتے ہیں۔ یہ رویے سطحی اور دور جدید کے تقاضوں سے مبرا ہیں۔ جدید دورکی ضرورت ہے کہ حقیقت پسندانہ اور منطقی رویے اختیار کیے جائیں اور افواہوں کو پھیلانے سے گریز کرناچاہیے۔ جو سماجی زندگی میں انتشار پیدا کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔

چاہے صحافت ہو، ابلاغ عامہ یا اخبارات ہوں الفاظ کی حرمت مجروح ہونے سے گریز کرنا چاہیے۔ آخر ہم اپنی نئی نسل کے سامنے رویوں کی کون سی مثالیں قائم کر رہے ہیں اورکب تک ہم دوغلے رویوں سے قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکتے رہیں گے۔

The post دوغلے رویے آخر کب تک؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2DSl6ZZ

نیم حکیم خطرہ جان

شکریہ ڈاکٹر شاہد آپ نے ہمیں آئینہ دکھایا۔ ہم بہ حیثیت قوم کتنے آپ کے محتاج ہیں۔ آپ جو سوچیں، جوکہیں وہ خبر ہے، آپ کے اسکرین پر زندہ رہنے کے لیے ہم ایندھن ہے۔ ڈاکٹر شاہد پاکستان کی تاریخ کا حصہ ہیں نہ جانے کب سے موجود ہیں ۔ وہ روپ بدل بدل کر آتے رہے، طرح طرح کے نقاب اوڑھے، انداز اپنائے ہمیں اپنی طرف اپنے تجربوں اور تبصروں سے مائل بہ کرم کرتے۔ ہم کیا کرتے ہمارے وجود اور لاشعور میں ڈرکچھ اس طرح سے بیٹھا ہوا ہے کہ ہم جسے حقیقت سمجھتے ہیں وہ حقیقت نہیں ہمارے ڈر کا حصہ ہے۔ ہم خوف اور ہذیانیت کا شکار اس طرح سے چل پڑتے ہیں کہ جیسے ہم اتنے لاچار ہوں کہ کچھ بھی نہیں کرسکتے۔

ڈاکٹر شاہد تو ایک بیانیہ ہیں ایک Escape Goat  ہم سب میں شاید ایک ڈاکٹر شاہد موجود ہے۔ تبھی تو کہتے ہیں کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے یا پھر شاید ہر ایک بات کی ایک حد مقرر ہے وہ چاہے Fake Encounter  ہو یا پھر fake news  ۔ جب دونوں حد سے آگے چلے گئے تو رد عمل بھی اپنی پچھلی روایتیں توڑ چلا ۔ یہ تھی ایک جھلک زندہ قوم ہونے کی۔

صحافت میں ان مصنوعی طریقوں سے چیزوں کو Engineer  کرنا کب تک آخر؟ آخر کب تک !! بہت کچھ بدلا ہے ۔ میں صحافت کے اس شعبے سے بالواسطہ یا بلاواسطہ عرصہ دراز سے منسلک ہوں ۔ میری پرورش ایک سادھو اورصوفی طرز کے گھر میں ہوئی ہے۔ وکلاء کی تحریک کا زمانہ تھا جنرل مشرف کو ہٹانا تھا اور جمہوریت کو دوبارہ مستحکم کرنا تھا، مگرکیا تھا اس کی بنیادوں میں دائیں بازوکا بیانیہ بسا ہوا تھا۔ ایک ایسا بیانیہ جس کا حقیقت سے تعلق کم ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب اینکر شپ عروج پر تھی اور میڈیا پر چینلز کا راج تھا۔ ہر ایک کی نظر ٹی وی چینلز پر مرکوز تھی۔ خبروں اور تجزیوں کا دور تھا ۔ لوگ ڈرامے اور انٹرٹینمنٹ چینلز دیکھنا بھول گئے تھے ۔ جتنی سنسنی پھیلاؤ ، حب الوطنی دکھاؤ اتنی ہی ریٹنگ آپکے چینل کی بڑھتی تھی ، مگر میری اسکولنگ میں حقیقت پسندی تھی۔ ہم نے اپنا بوریا بستر سمیٹا اور چل پڑے یہ سوچ کر یہ پیشہ ہمارے مزاج کا نہیں۔

ڈاکٹر شاہد کی یہ خبر کم از کم دو تین ہفتے تو اسکرین کی زینت بنتی اگر اسٹیٹ بینک کی طرف سے کوئی خبر نہ آتی اور پھر ہمارے چیف جسٹس نے عدالت میں ہی اس خبر کو بند کیا اور اس طرح صحافت کے شعبے میں ایک نئے بیانیے نے جنم لیا کم از کم آیندہ کسی صحافی یا اینکر کی ہمت نہیں ہوگی کہ بغیر تحقیق یا ثبوت کے کسی خبرکو منظر عام پر لائیں اور یہی کچھ ہے نیکو لائے اوسٹو وسکی کے ناول میں کہ ’’لوہا کیسے کندن بنا‘‘ (How the Steel has Tempered )پاکستان کیسے پاکستان بنے گا؟ یہی ہے وہ فلسفہ جو ہمیں سمجھنا ہے۔

جمہوریت رواں دواں ہے اور اس سسٹم کو روکا نہیں جاسکتا یہ اور بات ہے کہ جمہوریت کو جمہوریت سے ہی خطرہ ہے، بالکل اسی طرح سے جس طرح آزاد صحافت کو خود آزاد صحافت سے خطرہ ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ہماری آزاد عدلیہ کو بھی آزاد عدلیہ سے ہی خطرہ ہو لیکن یو نہی ہمارا سفر رواں ہے پاکستان اور پاکستان بننے کا سفر۔ اس دفعہ اس سفر میں ایک Leap Forward  آیا ہے۔

ہم نے ایسے لوگوں کو منظر عام پر لانا ہے جو اپنے عہدے اور اختیارکا بے جا استعمال کرتے ہیں۔ ہماری تاریخ ایسے ہی لوگوں نے مسخ کی یا ہمیں پھر شاید تاریخ کا ادارک کرنا نہیں آتا ہم تاریخ کو نظریوں میں الجھ کر دیکھتے ہیں۔کبھی کبھار یہ نظریے ہماری آنکھوں میں یرقان اتار دیتے ہیں اور حقیقتیں بھی ہمیں یرقان زدہ نظر آنے لگتیں ہیں ۔ اسی لیے توکسی نے کہا ہے کہ Patriotism is Last Refuge of Scoundrel  اور پھر اس حقیقت میں بہت سے درباری جنم لیتے ہیں جو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہوتے ہیں۔ کل تک یہ درباری مشرف کے دربار میں تھے اور پھر وکلاء تحریک میں شامل ہوئے، پھر انھوں نے ایک نئی سمت پکڑی۔ حقیقت سے کھیلنا، سنسنی پھیلانا یہاں تک کہ غداری کے لیبل لگانا، مذہبی تعصب پیدا کرنا ان کا شیوا بن گیا۔ یہ اپنی اخلاقیات کا تعین بھی نہ کرسکے اور نہ کوئی روک نہ کوئی ٹوک تھی۔

مان لیجیے جنرل ضیاء الحق نے بہت ترامیم کیں آئین میں، یہ ترامیم بہت سے لوگوں کو مختلف زاویوں میں صحیح نظر بھی آئیں لیکن جنرل ضیاء الحق کا آئین میں یوں ترامیم کرنا بنیادی طور پر جمہوریت کو مسخ کرنا تھا اور ان کے اس سفر میں آج کے دور کے سب بڑے جمہوریت پسند میاں نواز شریف بھی شامل تھے۔ اس ترتیب سے اگر ہم یہاں تحریر کرتے چلے تو بات دور تلک تک جائے گی۔

اور یہ بھی ذرا مان لیجیے! میاں صاحب کہتے سچ ہیں کہ شیخ مجیب کی اولین خواہش حکومت بنانے کی تھی اور یہ ان کا حق تھا جب کہ یہ ہم تھے جو اس حق کے سامنے رکاوٹ تھے۔

اور ایسی کئی مسخ شدہ باتیں جو ہمارے بیانیے کا حصہ ہیں جو ہمارے روح کو ڈستی ہیں اور جس سے ہماری آیندہ کی راہوں کو گرہ لگ جاتی ہیں، ہمیں سوچ سمجھ کر خندہ پیشانی سے اپنی تاریخ کو درست کرنا ہوگا۔ زینب ہماری تاریخ کے لیے نیا موڑ ہے اور ایسے کئی واقعات ہیں جو ہماری راہوں کو متعین کریں گے۔ کیونکہ اس دفعہ ہم نے ان حقیقتوں کو Forensic  پیمانوں سے پرکھنا ہے۔

جب ڈاکٹر شاہد یہ کہہ رہے تھے کہ عمران کے 80  اکاؤنٹ تھے جب کہ اس کے تیس اکاؤنٹ کا ثبوت وہ کورٹ کے پاس پیش کر رہے ہیں اور پھر اسٹیٹ بینک کے افسران کا بیان، دراصل وہ Forensic Expert  تھے ایک لحاظ سے۔ اور پھر سپریم کورٹ نے JIT  تشکیل دی کہ Forensic view  آسکے۔ خود DNA  کیا ہے۔Forensic report  ہے۔ ہمیں اس طرح سے ایسی تاریخ کو بھی دیکھنا ہوگا جس کو Forensic کی آنکھ سے دیکھنے کے عمل کو Historicism  کہا جاتا ہے۔

ہم اپنے بیانیہ کو ان قصیدہ خواہوں، افواہیں پھیلانے والوں اور ہمارے جذبات کو الجھانے والوں کے حوالے نہیں کرسکتے۔

ہمارے ساتھ یہی کچھ ہورہا تھا اور ہورہا ہے۔ حقیقت اور ہوتی ہے افسانہ اور ہوتا ہے۔ ہماری تاریخ بہت خوبصورت ہے۔ ہمیں اپنی تاریخ کو ترتیب دینا ہوگا۔ یہ ہماری آیندہ کی نسلوں پہ اک بہت بڑا احسان ہوگا جو ہم اس طرح سے کرتے جائیں گے۔

The post نیم حکیم خطرہ جان appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2Et9SfE

جائیدادوں سے متعلق مسائل

کراچی کی تیزی سے بڑھتی آبادی اور تیزی سے کم ہوتی زمینوں، لینڈ مافیا و بلڈر مافیا اور حکومت اور متعلقہ اداروں کی عدم توجہ و عدم پلاننگ نے کراچی کو مسائل کا گڑھ بنادیا ہے۔ بدامنی، بجلی، پانی، سیوریج، ٹریفک جام کے مسائل شہر میں غیر قانونی بس اڈے، تجاوزات، ٹینکر مافیا اور ٹینکروں کے حادثات میں بلاناغہ کئی زندگیوں کا اتلاف ہونا ایک معمول بن چکا ہے۔ شہر کا 3 فیصد حصہ دھول اور ایک حصہ کیچڑ کی صورت اختیار کرچکا ہے۔

شہر کے سماجی مسائل میں سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ رہائش کا ہے جو ایک ناگہانی صورت اختیار کرچکا ہے۔ بڑھتے ہوئے خاندانوں میں جائیداد کی وراثت کی تقسیم اور ملک کے دیگر علاقوں سے کراچی کی طرف آبادی کے بہاؤ کی وجہ سے جائیدادوں کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں۔ 120 گز کے درمیانے سے مکان کی قیمت بھی ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ چل ہی ہے۔ مکان خریدنا متوسط طبقے کی دسترس سے باہر ہوچکا ہے۔

شہر میں لینڈ و بلڈر مافیا کی شہریوں کو لوٹنے کی سرگرمیاں بھی اپنے عروج پر ہیں جس کے لیے نت نئے طریقے اور ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں، مجبور و بے بس شہریوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے۔ ہاؤسنگ سوسائٹیوں، بنگلوز، فلیٹس کے علاوہ بڑے پیمانے پر پورشن بناکر فروخت کرنے کا بے حد منافع بخش کاروبار اپنے عروج پر ہے۔

چھوٹے چھوٹے سے پلاٹوں اور گلیوں میں پورشنز بناکر غیر قانونی طور پر فروخت کیے جا رہے ہیں، جو سیل ڈیڈ کے ذریعے سب رجسٹراروں کی ملی بھگت سے فروخت کیے جا رہے ہیں ان کی نہ تو سب لیز ہوتی ہے نہ نقشہ، ایسے پورشنز پر نہ تو قرضہ لیا جاسکتا ہے نہ ہی کسی ضمانت میں رکھائے جاسکتے ہیں۔ ایسے تعمیر شدہ پورشنز میں صفائی ستھرائی، مرمت، پانی و سیوریج وغیرہ کا مشترکہ معاملات اور یونین وغیرہ نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے پیچیدہ قسم کے مسائل اور لڑائی جھگڑے جنم لے رہے ہیں۔ بلڈرز اور لینڈ مافیا شہریوں کا بری طرح استحصال کر رہے ہیں، متعلقہ ادارے ان کی سرکوبی کرنے کے بجائے ان کے دست و بازو بنے ہوئے ہیں۔

عوام سے کھربوں روپے لوٹ چکے ہیں۔ شہر میں چائنا کٹنگ پلاٹس کے ذریعے ہزاروں پلاٹس کی بندر بانٹ کی گئی، ان کی باقاعدہ دستاویزات جاری کی گئیں، ان پلاٹوں پر کاروباری اور رہائشی سرگرمیاں عروج پر پہنچیں تو عام شہری بھی اس جانب راغب ہوئے، کچھ نے اپنے اثاثے بیچ کر یا قرض لے کر چھوٹا موٹا کاروبار شروع کیا، کچھ غریبوں نے جو رہائش کی سکت نہیں رکھتے تھے اپنی عمر بھر کی جمع پونجی لگا کر سر چھپانے کی جگہ بنائی۔

کئی عشروں سے جاری اور دن بہ دن گمبھیر ہوتے شہری مسائل اور متعلقہ اداروں اور حکومت کی عدم توجہی پر عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے بالآخر عدالت عظمیٰ کو نوٹس لینا پڑا، جس سے ارباب اختیار اور متعلقہ اداروں میں کھلبلی مچ گئی۔ عدالت کی جانب سے تشکیل کردہ واٹر کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) امیر ہانی مسلم نے پروجیکٹ ڈائریکٹر کو فوری طور پر ہٹانے کا حکم دیتے ہوئے سیکریٹری بلدیات کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی سفارش کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا ہے کہ آبی منصوبوں کے لیے جاری کردہ 150 ارب روپے کی رقم کہاں گئی؟

عدالت عظمیٰ نے شہر میں غیر قانونی تعمیرات، سرکاری زمینوں پر قبضہ اور رفاہی پلاٹوں کی حیثیت تبدیل کرنے اور چائنا کٹنگ جیسے معاملات پر متعلقہ اداروں کی سرزنش کرتے ہوئے ان کے فوری خاتمے کا حکم دیا تو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور کے ڈی اے نے بادل ناخواستہ اپنی کارروائیوں کا آغاز کیا، سیکڑوں شادی گھر گرا دیے گئے، جن شادی گھروں کو کے ڈی اے نے مسمار کیا انھیں ہی دوبارہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے مسمار کرکے اپنی کارکردگی کی فہرست میں شامل کرلیا، جواز یہ دیا گیا کہ کے ڈی اے نے انھیں مکمل طور پر مسمار نہیں کیا تھا۔

اتھارٹی کی پولیس نے کچھ مکانات کی منزلیں اور تعمیراتی شٹرنگ کو بھی گرایا، چائنا کٹنگ پر تعمیر کردہ مکانات بھی گرائے گئے، پلاٹ الاٹ کرنے والے اور انھیں بیچ کر مال بنانے والے تو نکل گئے، جن غریبوں نے یہ پلاٹ خرید کر اپنے سر چھپانے کی جگہ بنائی تھی وہ سولی پر لٹکے ہوئے ہیں کہ نہ جانے کب ان کے گھروں کو بھی مسمار کردیا جائے۔

عدالت عظمیٰ کے حکم کے باوجود اس قسم کی خبریں متواتر آرہی ہیں کہ شہر میں مرکزی جگہوں پر غیر قانونی تعمیرات کا دھندا اب بھی بلڈر مافیا اور ایس بی سی اے کی ملی بھگت سے جاری ہے۔ اتھارٹی مبینہ بھاری نذرانوں کے عوض غیر قانونی تعمیرات کے بوگس Completion Certificate جاری کر رہی ہے، جن کے ذریعہ بلڈرز گیس و بجلی کے کنکشن حاصل کر رہے ہیں، اتھارٹی کے ایک ڈی ایس پی نے خود جعلی نقشے اور بوگس کمپلیشن پلان کے ذریعے اپنے گھر پر گیس و بجلی کے کنکشن حاصل کیے، اینٹی کرپشن نے جب مذکورہ مکان کے منظور شدہ نقشے کا ریکارڈ طلب کیا تو انکشاف ہوا کہ اتھارٹی کے پاس اس کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں ہے۔

غیر قانونی تعمیرات کی سرپرستی اور حقیقی انہدامی کارروائی نہ ہونے پر اتھارٹی کی جانب سے محکمہ جاتی تادیبی کارروائی کرتے ہوئے 54 اہلکاروں کو محض ایک گریڈ تنزلی یا ایک سال کے لیے انکریمنٹ روکنے کی سزا دینے پر ہی اکتفا کیا گیا ہے۔ ایک خبر یہ ہے کہ اتھارٹی نے 1994ء کے بعد رفاہی پلاٹوں کے تبدیلی استعمال کے اجازت نامے منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

ڈی جی کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں واضح کیا گیا ہے کہ اتھارٹی کی جانب سے رفاہی نوعیت کے ان پلاٹوں سے بلڈنگ پلان کی منظوری دی جائے گی جن کا استعمال اراضی 1994ء سے قبل تبدیل ہوگیا تھا، ان کی منظوری بھی ماسٹر پلان ڈپارٹمنٹ کی تجدید سے مشروط ہوگی، اس اعلان سے شہر کی کمرشل و رہائشی تعمیرات مسمار کرنے اور بلیک میلنگ اور رشوت کی ایک نئی راہ استوار ہونے کے امکانات ہیں۔

کراچی کے شہریوں سے جائیداد کی خرید و فروخت کے سلسلے میں جو رجسٹریشن فیس، کیپٹل ویلیویشن ٹیکس، ایڈوانس ٹیکس، گین ٹیکس، ویلتھ ٹیکس، ٹاؤن ٹیکس وغیرہ لیے جا رہے ہیں ان کی شرح بھی دیگر صوبوں کے مقابلے میں زیادہ ہے، جائیدادوں کی قیمتوں کے غیر حقیقت پسندانہ تعین اور ٹیکسوں کی شرح بھی ایک بڑی زیادتی ہے، جس کی وجہ سے بہت سی قانونی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں، سندھ بورڈ آف ریونیو، فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی تعین کردہ قیمتوں اور مارکیٹ ویلیو میں بڑا فرق پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے خریدار ایگریمنٹ میں حقیقی قیمت جب کہ جائیداد کی منتقلی کی دستاویزات میں سرکاری قیمت ظاہر کرنے پر مجبور ہوتا ہے، ورنہ اس کو لاکھوں روپے مزید ادا کرنے پڑتے ہیں۔ خاص طور پر وراثت کی جائیداد میں یہ مشکل درپیش آتی ہے کہ اگر حقیقی قیمت ظاہر کی جائے تو ان کی منتقلی پر لاکھوں روپے کے اضافی اخراجات آجاتے ہیں جو اس کے بعد ہر منتقلی پر ادا کرنا پڑتے ہیں۔

اگر سرکاری قیمت ظاہر کی جائے تو خدشہ رہتا ہے کہ کہیں ورثا کو جائیداد کی اصل قیمت کے تناسب سے حصہ دینے سے محروم نہ کردیا جائے۔ کمپلیشن سرٹیفکیٹ کے بغیر جائیداد کلیئر کی جا رہی ہیں، حالانکہ بلڈنگ کنٹرول آرڈیننس کے تحت اتھارٹی کی ذمے داری ہے کہ وہ بلڈرز کو کمپلیشن سرٹیفکیٹ لیے بغیر خریداروں کو قبضہ نہ دینے دے۔ خریداروں کو تو علم ہی نہیں ہوتا کہ کمپلیشن سرٹیفکیٹ کیا ہوتا ہے۔ بلڈرز تو قبضہ دے کر نکل چکا ہوتا ہے، 20 یا 30 سال بعد خریدار اس کو کہاں سے ڈھونڈ کر لائیں۔ یہ سراسر SBCA کی نااہلی، ملی بھگت اور بے رحمی ہے، جس کی سزا بے قصور شہری بھگت رہے ہیں۔

بدقسمتی اور ظلم یہ ہے کہ جب یہ ادارے سو رہے ہوتے ہیں تو اس کی سزا بھی شہریوں کو ملتی ہے اور جب ان کو جگایا جاتا ہے تو اس کی سزا اور پریشانیاں بھی شہریوں کے حصے میں آتی ہیں، مگر یہ کردار کبھی کیفر کردار تک نہیں پہنچتے، اس سنگین پہلو کو عدالتوں کو خاص طور پر مدنظر رکھنا چاہیے۔

The post جائیدادوں سے متعلق مسائل appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2DRuxch

پہلا قدم

جمعیت علمائے الاسلام (ف) کے سینیٹر حمداللہ اپنی شکل، صورت، طرز حیات اور انداز گفتگو سے ایک ٹھیٹ قبائلی نظر آتے ہیں اور دیکھنے میں وہ روایتی قبائلی دکھائی دیتے ہیں جو نہ صرف خود تعلیم یافتہ نہ ہوں بلکہ تعلیم کے دشمن بھی ہوں۔ مگر ان میں وہ تمام خوبیاں بھی بدرجہ اتم موجود ہیں جو ایک قبائلی میں ہوتی ہیں۔ سخت کوشی، دوربینی، صداقت اور جرأت اور اسی کے ساتھ ساتھ باریک بینی اور زندگی کے تجربات اور اس کی سختیوں کو انگیز کرنے کا حوصلہ۔

تعلیم والی بات تو ہم نے اس لیے کہہ دی کہ عام طور پر قبائلی عمائدین کے بارے میں ایسے تصورات عام ہیں، ورنہ یہ عمائدین زندگی کے وسیع تجربات کے حامل اور بڑے دوربیں ہوتے ہیں۔ سینیٹر حمداللہ ہمارے قانون سازوں میں ایک خاص اہمیت کے مالک ہیں۔ پچھلے دنوں ختم رسالت کے سلسلے میں جو ہنگامہ برپا ہوا وہ بظاہر سرکاری مشنری کی کسی سطح پر غلطی کے باعث تھا، مگر اس غلطی کی نشاندہی نہ تو سرکاری ممبران نے کی نہ ان کی جان کے دشمن اپوزیشن کے کسی لیڈر نے۔

ہمارے لیڈران سیاسی اختلافات کو مستقل ’’کُٹی‘‘ کا رنگ دینے میں اپنا جواب نہیں رکھتے۔ مگر اپوزیشن کے کسی ممبر نے بھی اس بل میں ترمیم کے مسئلے کی نشاندہی نہیں کی، ورنہ وہ تو ایک دوسرے کی بے توقیری کے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔ اس غلطی کی نشاندہی ایک مولوی نما، قبائلی الاصل ممبر سینیٹ نے کی۔ اور پھر اس پر طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ غلطی کی تصحیح کے بعد بھی زلزلے کے آفٹر شاکس اب بھی محسوس کیے جاتے ہیں۔

اب چند دن قبل امریکی سفارت خانے کے پولیٹیکل آفیسر گراہم فروسٹ نے سینیٹر حمداللہ سے ملنے کی درخواست کی۔ سارے سفارت خانے جس ملک میں کام کرتے ہیں، ان کے سیاستدانوں، اداروں، دانشوروں اور بااثر شخصیات سے باقاعدہ آگاہی رکھتے ہیں اور ان کے اثر و رسوخ سے واقف ہوتے ہیں، ہمیں مسٹر گراہم فروسٹ کی حمداللہ جیسے سینیٹر سے ملنے کی خواہش کی وجہ تو نہیں معلوم، البتہ سفارتی انداز کار کی بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ ایک عالمی طاقت کا سفارت کار پاکستانی سیاست اور سیاست دانوں پر گہری نظر رکھتا ہوگا اور اسے اندازہ ہوگا کہ حمداللہ کتنی باریک بینی کے حامل اور سیاسی تجربہ رکھنے والے قانون ساز ہیں اور ان سے ملنا کیوں ضروری ہے۔

ہوا یوں تھا کہ چند روز قبل خود حافظ حمداللہ اور چند دیگر ممبران سینیٹ نے امریکا جانا چاہا اور اس کے لیے ویزا کی درخواست کی۔ عام طور پر سینیٹ یا پارلیمنٹ کے ارکان کو کسی ملک کے سفر سے روکنے کی کوئی وجہ نہیں ہونی چاہیے، وہ ممبر متعلقہ ملک کا مخالف ہی کیوں نہ ہو۔ وہ اپنے ملک کے مفادات کے مطابق ملک کے مقتدر ادارے کا ممبر اور اس لیے دنیا کے دیگر ممالک کے لیے قابل احترام ہوتا ہے اور اسے آزادی سے نہ صرف ویزا ملتا ہے بلکہ ملک میں آزادانہ نقل و حرکت اور وہاں کے اداروں اور رائے عامہ کے کارساز اداروں میں اظہار خیال کی آزادی ہوتی ہے۔

مگر ہوا یہ کہ امریکی حکومت اور ٹرمپ انتظامیہ نے سینیٹ کے معزز ممبران کو ویزا دینے سے انکار کردیا۔ یہ پاکستانی عوام، پارلیمنٹ اور حکومت کے لیے انتہائی توہین آمیز اور غیر پارلیمانی رویہ تھا۔ شاید اسی کی وضاحت کے لیے مسٹر گراہم فروسٹ نے حافظ حمداللہ سے ملنے کی درخواست کی۔

حافظ حمداللہ نے سفارت خانے کے پولیٹیکل افسر کی اس درخواست کا تحریری جواب دیا اور انھیں لکھا کہ پاکستانی سینیٹرز کو ویزا نہ دینا پاکستانی قوم کے لیے بے عزتی کا باعث بنا تھا اور اس وقت امریکی رویہ انتہائی تضحیک آمیز تھا، اس لیے جب تک امریکا اپنے اس رویے پر معافی مانگ کر اپنا رویہ تبدیل نہیں کرتا وہ کسی امریکی وفد یا سفارتی و انتظامیہ افسر سے ملاقات نہیں کریں گے۔

ادھر سینیٹ کے چیئرمین جو بڑے صاف ذہن کے مالک اور اپنی صاف گوئی کے لیے مشہور ہیں اور سیاسی امور میں دانشورانہ رویے کا اظہار کرتے ہیں، پہلے کہہ چکے ہیں کہ جب تک امریکی رویے پر ندامت کا اظہار نہیں کیا جاتا کسی امریکی وفد کو سینیٹ میں خوش آمدید نہیں کہا جائے گا۔

سینیٹر حمداللہ نے سینیٹ کے چیئرمین کی رولنگ کا حوالہ دینے کے علاوہ صدر ٹرمپ کے پاکستان مخالف رویے اور ان کی انتظامیہ کی اس کے مطابق کارکردگی پر سخت تنقید کی اور امریکا سے اپنے رویے پر نظرثانی کامطالبہ کیا۔

امریکا عالمی طاقت ہے بلکہ عالمی طاقتوں پر پہلے نمبر پر فائز ہے۔ وہ حیرت انگیز ایجادات کا حامل اور وسیع جنگی وسائل سے مالا مال ہے، مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ عالمی غنڈہ گردی یا دوسرے لفظوں میں بین الاقوامی دہشتگردی کا مظاہرہ کرتا رہے اور اس کے کاسہ لیس دبکے بیٹھے رہیں۔ حمداللہ صاحب نے جرأت کرکے امریکا کو یہ یقین دلایا ہے کہ پاکستان ان کی شرائط پر زندہ رہنے کے لیے تیار نہیں۔

وہ دن ہوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا

اب عالمی طاقتوں کی غراہٹ دوسروں کے لیے اتنی دہشت کا باعث نہیں رہی ہے اور مسلمانوں کا تو عقیدہ ہی یہی ہے کہ عالمی طاقت کوئی بھی ہو عالمی ہی نہیں کائناتی حکمرانی خدا کو زیب دیتی ہے اور اسی کی حکمرانی حق ہے، باقی جو ہے جادوگری۔

اب تک ہمارے سیاستدان امریکا کے سامنے بھیگی بلی بنے رہتے تھے مگر اب خدا خدا کرکے انھیں یقین ہو چلا ہے کہ دنیا کا کاروبار امریکا نہیں خدا چلا رہا ہے۔

مقصود یہ ہے کہ کسی ملک کو، چاہے وہ کتنا ہی بڑا ہو، یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ہماری تضحیک کرے یا ہم کو کم تر سمجھ کر وہ سلوک کرے جو نصف صدی قبل غلام ممالک کے ساتھ کیا جاتا تھا۔ اب ہم اس نوعیت کی غلامی میں مبتلا نہیں اور اپنا راستہ خود بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ امریکا پر بار بار اعتماد کرکے اور بار بار دھوکا کھا کر بھی ہم نے بہت کچھ سبق سیکھ لیا ہے۔

اب امریکا کو قدم اٹھانے سے قبل یہ یقین رکھنا چاہیے کہ اسے قدم قدم پر حافظ حمداللہ جیسوں سے واسطہ پڑتا رہے گا۔ پہلا قدم اٹھا لیا گیا، اب سفر جاری رہے گا۔

The post پہلا قدم appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2rWiOr7

روحانی والدین کی تلاش

کتاب کھلی تو اکبر الٰہ آباد کی اس رباعی پر نظر پڑی، کہتے ہیں:

تم شوق سے کالج میں پھلو، پارک میں پھولو
جائز ہے غباروں میں اڑو، چرغ پہ جھولو

بس ایک سخن بندۂ عاجز کا رہے یاد
اﷲ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو

یہ رباعی یقیناً اکبر الٰہ آباد نے نوجوانوں کو مخاطب کرکے کہی ہے۔ بات بہت مناسب ہے، جو اس وقت کے نوجوانوں کے اطوار دیکھتے ہوئے شاعر کے دل سے نکلی تھی، لیکن آج بھی یہ ہمارے نوجوانوں کے لیے فٹ بیٹھتی ہے۔

آج ہمارے نوجوان تعلیم کو جزوی اور غیر تعلیمی سرگرمیوں کو کلی طور پر اختیار کرتے ہوئے نہ صرف اپنے لیے بلکہ معاشرے میں بھی بگاڑ کی صورت پیدا کررہے ہیں، یہ رجحان جسے خدا جانے ہم کون سی راہ کہیں، عجیب سی صورتحال سامنے لارہا ہے۔

جذباتی ہیجان خیزی، بے ترتیبی ڈسپلن کا فقدان، غیر ذمے دارانہ رویہ عادات میں شامل ہوتا جارہا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تمام حماقتی رویوں کو ماڈرن اسلوب کا نام دے کر اسے اہمیت نہیں دی جارہی، جدید طرز کے موبائل فونز نے ویسے ہی چڑچڑے پن، تنہائی پسندی اور خودغرضی کے جراثیم پیدا کر رکھے ہیں۔ رہی سہی کسر ہمارے اطراف کے خودغرضانہ ماحول نے پوری کردی ہے۔ اب کس کو مورد الزام ٹھہرائیں کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا اور سب ایک ہی حمام میں کھڑے نظر آتے ہیں۔

حال ہی میں کے پی کے میں شبقدر کے ایک نجی کالج کے پرنسپل کو جو حافظ قرآن بھی تھے، ان کے اپنے ہی کالج کے سیکنڈ ایئر کے طالب علم نے پستول سے فائر کرکے ہلاک کردیا۔ یہ کیسی روایت ہے، کیسا معاشرہ ہے، جسے ہم سب نے آہستہ آہستہ پروان چڑھایا ہے۔ اس کے ذمے دار محض اس طالب علم کے والدین ہی نہیں، میں اور آپ بھی ہیں۔ کیونکہ میں اور آپ بھی اسی معاشرے کے یونٹ کا ایک حصہ ہیں۔ پہلے خبر ملتی ہے کہ نوجوان اپنے پرنسپل کو ہلاک کرکے برملا اظہار کرتا ہے کہ اسے ان کے ہلاک کرنے پر کوئی شرمندگی نہیں کیونکہ اس کی ناقص عقل کے مطابق اس کے استاد محترم جوکہ حافظ قرآن بھی تھے، نعوذباﷲ کسی طرح بے حرمتی کرنے کے مرتکب تھے۔

اس نوجوان کی عقل میں اتنا ہی سمایا تھا، اس کی ذہن کی عدالت میں بس اتنا ہی تحریر تھا کہ وہ صحیح ہے اور استاد غلطی پر ہیں۔ یقیناً وہ محترم غلطی پر تھے، کیونکہ انھیں احساس تھا کہ ان کا یہ شاگرد جو پہلے ہی تعلیمی کارکردگی میں خاصا کمزور رہا ہے، پورے تین دن تک کالج سے غیر حاضر رہا۔ گو قصہ تو اسی فیض آباد کے جلسے کا تھا لیکن والدین اور اساتذہ کی سرزنش بھی ضروری ہے کہ والدین کا تعلق اولاد سے جس انداز کا ہوتا ہے تو اساتذہ کا تعلق بھی روحانی حد تک ہوتا ہے، وہ اپنے طالب علموں کی روح کی بالیدگی کی نشوونما پر توجہ دیتے ہیں اور اگر وہ استاد پروفیسر صریر محروم جیسے محترم تھے کہ جن کی مذہبی عقیدت کا اظہار ان کے حافظ قرآن ہونے سے لگایا جاسکتا ہے، کیا کسی اور شہادت کی بھی ضرورت ہے اور یہ کہ انھیں اپنے آخری وقت میں جس طرح کلمہ شہادت تین بار پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی اس سے ان کے مذہبی جذبے کا پتہ چلتا ہے۔ کاش کہ ایسا دلخراش واقعہ نہ ہوا ہوتا۔

اس حادثے کی طرح ایک اور برا نمونہ حیدرآباد کے ایک انگریزی سکھانے والے ادارے میں پیش آیا، جب استاد نے ایک طالب علم کو اس کی بدتمیزی پر سرزنش کی تو موصوف نے نہ صرف برا منایا بلکہ اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ادارے میں توڑ پھوڑ کی اور استاد کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا۔ کچھ ایسا ہی واقعہ کئی برسوں پہلے کراچی کے ایک سرکاری کالج میں بھی پیش آیا تھا، جب چند نوجوانوں نے اپنے ایک لیکچرار کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا، اس حادثے میں ان صاحب کی دونوں آنکھیں ضایع ہوگئی تھیں۔ اچھے بھلے صحت مند، انتہائی سمجھ دار اپنے کام میں ماہر ایک استاد کی اس قدر بے قدری، خدا کی پناہ۔ وہ لیکچرار کام سی کے طالب علموں کو اپنے گھر پر ہی اکاؤنٹنگ پڑھانے لگے تھے۔ ذرا تصور کیجیے آنکھوں سے محروم اور اکاؤنٹنگ جیسا مضمون۔

ایک ریٹائرڈ استاد اور ماہر ہومیو پیتھک ڈاکٹر جو اب خدمت خلق کے جذبے سے سرشار اپنے مریضوں کو مفت بنا کسی فیس کے دیکھتے ہیں اور دوائییں دیتے ہیں، معاشرے میں پھیلنے والی ابتری کا ذمے دار اسی زمانے میں بسنے والے لوگوں کو قرار دیتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ ہم خود اپنے بچوں میں پیدا ہونے والی اخلاقی برائیوں کے ذمے دار ہیں۔ بچے تو معصوم ہوتے ہیں، انھیں جس طرح تربیت دو گے وہ اسی طرح پلیںگے، ہم اپنے بچوں کو بڑوں کو پٹر پٹر جواب دیتا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو کتنا جینئس ہے، کیسے فرفر جواب دے رہا ہے، بجائے اس کے کہ اس کے ایک تھپڑ رسید کریں یا تنبیہہ کریں کہ اس طرح بڑوں کو جواب نہیں دیتے۔

ہم خوش ہوتے ہیں کہ ہمارا تین چار سال کا بچہ موبائل فون پر انگلیاں مار مارکر کھیلتا ہے، ہم کہتے ہیں نئے دور کی پیداوار، پھر کچھ برسوں بعد ہمیں زمانے سے شکایت پیدا ہوجاتی ہے کہ کیا کریں زمانہ بڑا خراب ہے۔ بھئی کیسے خراب ہے۔ یہی زمین ہے، یہی آسمان ہے، آج بھی اسی طرح شکل و صورت کے انسان ہیں جیسے پچاس ساٹھ برس پہلے کے تھے، پھر یہ خرابیاں کیسے پیدا ہوئیں۔ دراصل ہم اپنی اولاد میں بدتمیزیاں، بداخلاقیاں، بدتہذیبی منتقل کرنے کے سزا وار ہیں۔

لالچ، حرص اور حسد نے آج کے انسان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے، ہم اپنی اولاد کی اصل ذمے داری کو پس پشت ڈال کر خود کمائی جمع کرنے پر لگ گئے ہیں۔ گریڈ ون سے لے کر اعلیٰ درجے تک کے افسران کو دیکھ لیں، سب کرپشن میں مبتلا ہیں۔ یہ سب کچھ اچانک سے نہیں بگڑا، بلکہ اسے آہستہ آہستہ ہم سب نے مل کر بگاڑا ہے۔ شبقدر میں ہونے والے اس واقعے نے ہر ایک ذی شعور انسان کی روح کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے کہ بات اب اس قدر آگے نکل چکی ہے کہ ہمارے بچے اپنے اساتذہ پر پستول بھی تان رہے ہیں۔

وہ ایک نہایت بوڑھی خاتون تھیں، بینک کی خاتون افسران سے بات چیت کررہی تھیں، ان کے ہمراہ ان کی صاحبزادی بھی تھیں، جب وہ خاتون فارغ ہوئیں تو ان کی جگہ ایک صاحب آکر بیٹھے، خاتون افسر نے ان صاحب سے بات شروع کی، اتنے میں وہی بوڑھی خاتون کسی کام سے دوبارہ بینک کی خاتون افسر کے نزدیک آئیں۔

’’میڈم کیا آپ فلاں مس ہیں‘‘ ان صاحب نے اپنی کرسی سے کھڑے ہوتے بڑی محبت اور عقیدت سے پوچھا۔ بوڑھی خاتون مسکرائی، ’’جی ہاں میں وہ ہی ہوں‘‘۔

’’مس! آپ نے مجھے پہلی کلاس میں پڑھایا تھا‘‘ ان صاحب کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ ’’اچھا اچھا، میں بھی پہچان گئی تھی کہ میرا ہی بچہ ہے‘‘ بزرگ خاتون کے چہرے پر بھی مسکراہٹ پھیل گئی تھی جس میں فخر و انبساط کے جذبات بھی پنہاں تھے کہ یہ میرا طالب علم ہے۔ ’’اور مس! آپ کیسی ہیں، ٹھیک ٹھاک تو ہیں‘‘۔ ’’ہاں بیٹا! شکر ہے خدا کا‘‘ وہ بزرگ خاتون اپنے سابقہ طالب علم کو دعائیں دیتی بینک سے رخصت ہوگئیں۔ ایک سوال کیا ہمارے نوجوان اپنے اساتذہ سے ایسی دعائیں سمیٹ سکیں گے؟ کیا استاد اور طالب علم کے بیچ روحانی والدین کا رشتہ پھر سے قائم ہوسکے گا؟

The post روحانی والدین کی تلاش appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2GyJCRF

ہیلن کیلر کون تھی؟

ماضی کی نسبت موجودہ دور میں بچوں کے رسائل اور ان کے لیے لکھنے والوں ادیبوں کی کمی شدت سے محسوس کی جا سکتی ہے۔ والدین کو یہ شکایت ہے کہ ان کے بچے کتابوں کے لیے وقت نکالنے کے بجائے اپنے قیمتی روزوشب کمپیوٹر پر بیٹھ کر سوشل میڈیا کی نذرکررہے ہیں، مگر اب بھی ایسے بچوں کی کمی نہیں جوکتابوں کے سہارے اپنی درس گاہوں سے بہترین نمبروں کے ساتھ کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں۔ ہاں یہ ضرورہوا کہ ماضی کی نسبت موجودہ دور میں لائبریریاں نہ ہونے کے برابر ہیں جہاںکتابوں سے محبت کرنے والے بچے اور بڑے معمولی سی ممبر شپ کے بدلے اچھی اور نئی کتابیں با آسانی پڑھ سکتے تھے۔

اردو زبان میں چھپنے والے بچوں کے اہم رسائل میں’نونہال‘ اور ’تعلیم و تربیت‘ نے جہاں بچوں کی تربیت میں بھر پور کردار ادا کیا وہاں بچوں کے کئی دیگر رسائل اب بھی ملک کے بڑے بڑے بک اسٹالز پر نظر آ ہی جاتے ہیں، لیکن بچوں کو ان کی طرف راغب کرنا والدین اور اساتذہ کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

پاکستان کی دوسری زبانوں پر نظر ڈالی جائے تو سوائے سندھی زبان میں چھپنے والے رسائل کے پشتو اور بلوچی زبان میں بچوں کے رسائل نہ ہونے کے برابر ہیں ہاں لاہور سے اشرف سہیل کی ادارت میں پچھلے تیئس سال سے پنجابی زبان میں بچوں کے لیے ’’پکھیرو‘‘ نامی رسالہ اپنی اشاعت مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے جس سے یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ اردو کی طرح ملک کی دوسری زبانوں میں بھی اگر بچوں کے رسائل پر توجہ دی جائے تو بچوں کا ایسا حلقہ وجود میں آسکتا ہے جو اپنی تہذیب و ثقافت کے ساتھ دنیا کی مشہور شخصیتوں کے کارناموں اور ان کے بچپن سے بھی واقف ہوسکتا ہے۔

عام بچوں کی تعلیم و تربیت کے مسائل تو اپنی جگہ مگر ایسے بچوں کے بارے میں سوچیے جو پیدائشی طور پر دیکھنے اور سننے کی صلاحیت سے محروم ہوں یا بعد میں پیش آنے والے کسی حادثے کی وجہ سے اپنی قوت بصارت اور سماعت کھو بیٹھے ہوں ۔ ذہنی اور جسمانی معذوری کا شکار بچوں کے لیے یوں تو ملک میںچند ایسے ادارے موجود ہیں جہاں بچوں کی تعلیم کا مناسب انتظام کیا جاتا ہے، مگر ایسے اداروں کی اب بھی کمی محسوس کی جا تی ہے جو جدید تعلیم سے آراستہ سائنسی بنیادوں پر معذور بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا انتظام کرسکیں۔ بہت سارے معذور بچے اپنے والدین کی بے خبری اور نا سمجھی کی وجہ سے ایسے اداروں تک نہیں پہنچ پاتے، جہاں ان کی زندگی میں تبدیلیاں لانے کی کوشش کی جاسکے جس کی وجہ سے وہ پوری زندگی اسی معذوری میں بسر کردیتے ہیں ۔

والدین کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ اگر ہم اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا بہترانتظام کریں تو وہ امریکا میں پیدا ہونے والی ہیلن کیلر کی طرح پوری دنیا کو اپنی صلاحیتوں کا گرویدہ بنا سکتے ہیں۔

ہیلن کیلر دو سال کی عمر میں دیکھنے اور سننے کی صلاحیت سے محروم ہو گئی تھیں لیکن ان کے گھر والوں نے ان کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک ایسی استانی کا انتظام کیا جو ان کی زندگی میں بہار بن کرآئی اور وہ معذورلڑکی جس کی زندگی میں سوائے اندھیرے کے کچھ بھی نہیں تھا، ایک ایسی پڑھی لکھی ماہر تعلیم، سماجی کارکن اور مصنفہ کی صورت میں دنیا کے سامنے آئی جس نے اپنی صلاحیتوں سے اس بات کو جھوٹ ثابت کردیا کہ سماعت اور بصارت سے محروم افراد دوسروں کے سہارے زندہ رہنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے ۔ گیر تھامپسن کا شمار امریکا کے ایسے مصنفین میں ہوتا ہے جو تھیٹرکے ساتھ وابستگی کے علاوہ ، میڈیا اور تعلیم کے مختلف شعبوں پر بھی کتابیں تحریرکرچکے ہیں ۔ بنیادی طور پر وہ ایک ماہر تعلیم ہیں مگر بچوں کے لیے کتابیں تحریر کر نا بھی ان کی دل چسپی میں شامل ہے۔

Who was Helen keller ?کے عنوان سے معروف امریکی مصنفہ ہیلن کیلر پر لگ بھگ بارہ برس قبل ان کی ایک مختصر سی کتاب سامنے آئی تھی جس میں ہیلن کیلر کی پیدائش، ابتدائی زندگی، بیماری اور معذوری سے لے کر حصول تعلیم اور بول چال تک کے تمام مراحل کو انتہائی سادہ انداز میں بیان کیا گیا تھا۔ اس کتاب میں ہیلن کیلر کی زندگی اور جد وجہد کو اس انداز سے سامنے لایا گیا ہے کہ پڑھنے والوں میں ہمت، حوصلے اور جینے کی خواہش بیدارہوتی ہے۔

ڈاکٹر کرامت مغل نے پاکستانی بچوں کو ہیلن کیلر سے متعارف کروانے کے لیے اس کتاب کا نہ صرف شان دار ترجمہ کیا ہے بلکہ انتہائی خوب صورت ٹائٹل کے ساتھ اسے چھاپ کر کتابوں سے محبت کرنے والوں کے سامنے پیش کر دیا ہے۔

ڈاکٹرکرامت مغل کا شمار ایسے ادیبوں میں ہوتا ہے جنہوں نے انگریزی کی بہترین کہانیوں کو پنجابی میں ترجمہ کیااور جدیدتنقیدی رویوں کا ساتھ نبھاتے ہوئے مختلف تخلیقات پر انتہائی مدلل انداز میں تنقیدی مضامین بھی تحریرکیے، لیکن ان کی اس سے بھی بڑی پہچان ان کی تحریر کردہ کہانیاں ہیں جن میں ہمارے معاشرے کی سماجی ٹوٹ پھوٹ کے ساتھ اس صدی کے انسانوں کی انفرادی آزادی کے مسائل کو بھی انتہائی بہترین ڈھنگ کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔

ڈاکٹر کرامت مغل نے ہیلن کیلرکی زندگی اور کارناموں پر مبنی اس کتاب کا ترجمہ جس سادہ اور دل چھو لینے والے انداز کیا ہے، اسے دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پڑھنے والے اس کتاب کو کسی بہترین تحفے سے کم نہ پائیں گے۔ کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ بچوں کے لیے تحریر کی گئی ہے لیکن پڑھتے وقت کہیں بھی اس بات کا گمان نہیں ہوتا کہ بڑی عمرکے افراد اس سے استفادہ نہیںکرسکتے ۔

دوسری اہم بات یہ ہے اس سے قبل ہیلن کیلر کی زندگی کے بارے میں ہماری نظروں سے جو چیدہ چیدہ مضامین گزرے ہیں، ان میں کچھ تضادات کے ساتھ سنی سنائی اور سطحی تحقیق کا بھی اشارہ ملتا ہے مگر اس کتاب کو پڑھنے کے بعد ہیلن کیلر کی پوری زندگی کو انتہائی اچھے طریقے سے سمجھا جا سکتا ہے۔

The post ہیلن کیلر کون تھی؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2rVBdV9

صد سالہ مقدمے کا تاریخی فیصلہ

بعض خبریں اپنی نوعیت میں منفرد و یکتا اور حیران کن ہوتی ہیں، وہیں نظام کی بوسیدگی اور شکستگی کو بھی ظاہر کرتی ہیں ۔ سپریم کورٹ نے خیرپور ٹامیوالی کے ایک سو سال پرانے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے  پانچ ہزار چھ سوکنال اراضی شریعت کے مطابق ورثا میں تقسیم کرنے کا حکم دیا ہے ۔

یہ مقدمہ تقسیم ہند سے قبل 1918سے شروع ہوا ، پھر پاکستان کی نجی عدالتوں میں کئی دہائیوں تک زیرگردش رہا، سپریم کورٹ میں یہ مقدمہ 2005ء میں آیا ۔ سپریم کورٹ نے تیرہ سال بعد کیس کا فیصلہ سنایا۔کیا یہ اپنی نوعیت کا پہلا اور انوکھا فیصلہ ہے جس میں اتنی تاخیر ہوئی ہے ہرگزنہیں۔

ہمارے ہاں تو کہا جاتا ہے ، دادا کا کیس عدالت میں جائے اور اگر پوتے کو انصاف مل جائے تو بڑی بات ہے ، ورنہ نسلیں فیصلے کا انتظارکرتے کرتے زیرزمین چلی جاتی ہیں۔ چار بھائیوں کے قتل کے ایک مقدمے میں سپریم کورٹ نے قراردیا کہ دونوں ملزمان بے گناہ ہیں جب وکیل سپریم کورٹ کے آرڈر لے کر جیل پہنچا تو پتہ چلا ان بے گناہوں کو تو پھانسی دی جا چکی ہے۔

المیہ یہ ہے کہ اس وقت عدالتوں میں لاکھوں کیسز سماعت کے منتظر ہیں یا ان کی سماعت انتہائی سست روی سے جاری ہے۔ سائلین در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ مقدمات کے بروقت فیصلے نہ ہونے کے باعث ملزموں اور مجرموں کو کھلی آزادی مل گئی ہے اور انھوں نے معاشرے میں جنگل کا قانون لاگوکردیا ہے کیونکہ اول تو قاتل، چور، ڈکیت پکڑے نہیں جاتے اور پکڑے بھی جائیں تو وہ عدالتی نظام میں پائے جانے والے سقم سے فائدہ اٹھا کر پہلے چند روز میں ضمانت پر رہا ہوجاتے ہیں اور پھر مقدمے کے مدعی کو ڈرا دھمکا کر رہا ہوجاتے ہیں یا پھر مقدمہ اتنا طویل ہوتا ہے کہ اس کے عینی شاہدین اور گواہ یا تو دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں یا پھر اپنے موقف سے ہٹ جاتے ہیں۔

یہ بھی بہت بڑا سچ ہے کہ ہمارے یہاں ماتحت عدالتوں میں ججز کی تعداد مقدمات کے تناسب سے انتہائی کم اورعدالتوں کے اوقات کار بھی بہت کم ہیں۔ ماضی میں ڈبل شفٹ میں عدالتی کارروائی جاری رکھنے کی تجاویز آئی تھیں لیکن بدقسمتی سے یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ پورا سچ تو یہ ہے کہ ہمارے عدالتی نظام میں بے شمارخامیاں پائی جاتی ہیں، جن پر قابو پانے کے لیے سنجیدگی کے ساتھ اصلاحات کی ضرورت ہے کیونکہ انصاف میں تاخیر، انصاف کے قتل کے مترادف ہے۔

The post صد سالہ مقدمے کا تاریخی فیصلہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2GAt8Z2

زلزلے کے جھٹکے، الارمنگ سسٹم غیر فعال کیوں؟

پاکستان کے مختلف شہروں میں گزشتہ روز زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق ریکٹر اسکیل پر زلزلے کی شدت 6 اعشاریہ 2 ریکارڈ کی گئی ہے اور اس کا مرکز افغانستان کے صوبہ بدخشاں میں کوہ ہندوکش تھا، جب کہ اس کی گہرائی 178کلومیٹر تھی۔ زلزلے کے جھٹکے تین سے چار سیکنڈ تک محسوس کیے گئے تاہم ان کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ لوگوں میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا اور وہ کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے گھروں اور دفاتر سے باہر نکل آئے۔

ذرائع کے مطابق اسلام آباد، لاہور سمیت خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کے مختلف شہروں، راولا کوٹ، مظفرآباد، میرپور آزاد کشمیر، پشاور وغیرہ کے علاوہ بھارت کے شمالی علاقوں سمیت نئی دلی اور کابل میں بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔ بلوچستان کے شہر لسبیلہ میں زلزلے سے بیلہ کے علاقے میں ایک اسکول کی چھت گرگئی جس سے ایک بچی کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات ہیں، اس کے علاوہ ایک گھر کی چھت گرنے کی بھی اطلاعات ہیں جہاں 9 افراد زخمی ہوئے۔

بلاشبہ قدرتی آفات کو ٹالا نہیں جاسکتا لیکن حفاظتی تدابیر اختیار کرکے نقصانات کی شدت کو کم کیا جاسکتا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ زلزلے کے جھٹکوں سے زیادہ نقصانات کا سامنا نہیں ہوا لیکن یہ امر قابل توجہ ہے کہ ہمارے ملک میں قدرتی آفات کی پیشگی اطلاع دینے والے ادارے اور سسٹم غیر فعال ہیں، جب کہ دیگر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں قدرتی آفات کی پیشگی اطلاع اور ان سے نمٹنے کے لیے فعال حکمت عملی تیار کی جاتی ہے۔ پاکستان کو اس سے پیشتر کئی مواقع پر زلزلے کے باعث حد درجہ نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے، ایسے میں ملک میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور الارمنگ سسٹم کو فعال کرنے کی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں سپر بلیو بلڈ مون تھا، اور ماہرین کے مطابق جب بھی سپر مون ہوتا ہے تو زمین پر چاند کی کشش بے پناہ بڑھ جاتی ہے، جس کے سبب اس قسم کے واقعات پیش آنے کا امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ ماضی میں بھی سپرمون کے موقع پر ایسے واقعات پیش آچکے ہیں۔ صائب ہوگا کہ نہ صرف اداروں کو فعال اور ان کی کارکردگی بہتر بنائی جائے بلکہ مستقبل میں زلزلہ کے امکانات سے نمٹنے کی حکمت عملی، زلزلہ پروف عمارتوں کی تعمیر اور عوامی آگاہی مہم پر توجہ دی جائے۔ پاکستان کے بہت سے علاقے ان زمینی پرتوں پر قائم ہیں جن کے ہلنے سے زلزلہ کے خدشات ہیں، ایسے علاقوں پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

The post زلزلے کے جھٹکے، الارمنگ سسٹم غیر فعال کیوں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2DQdDe1

ماں اور بچے کی صحت میں پاکستان پڑوسی ممالک سے پیچھے ہے، تحقیق

 کراچی:  اہم عالمی تحقیق کے مطابق ماں اور بچے کی صحت کے حوالے سے اہداف کے تناظر میں پاکستان اپنے پڑوسی مسلم ممالک ایران، تاجکستان اور بنگلہ دیش کے مقابلے میں کہیں پیچھے ہے۔

آغا خان یونیورسٹی اسپتال کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق آغا خان یونیورسٹی، ٹورنٹو، کینیڈا کے سینٹر فار گلوبل چائلڈ ہیلتھ ایٹ دی ہاسپٹل فار سک چلڈرن اورڈیلا لینا اسکول آف پبلک ہیلتھ کے تحقیق کاروں نے مشترکہ طور پر 75 متاثرہ ممالک کے 1990ء سے  2015ء کے اعداد وشمار کا جائزہ لیا جس کے تحت انھوں نے خصوصی طور پر اسلامی ممالک میں پائی جانے والی شرح اور تبدیلی کے محرکات کا جائزہ لیا۔

اس مطالعے کے مطابق پاکستان 5 سال سے کم عمر بچوں کی اموات کی روک تھام کی فعالیت کے حوالے سے دوسرے بدترین گروپ میں شامل ہے۔ جنوبی اور وسطی ایشیائی ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں ماؤں کی اموات میں کمی کے حوالے سے بھی کچھ خاص بہتری ظاہر نہیں ہوئی۔

اے کے یو سینٹر آف ایکسی لینس ان ویمن اینڈ چائلڈ ہیلتھ کے بانی ڈائریکٹر اور تحقیق کے اہم مصنف پروفیسر ذوالفقار اے بھٹہ نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہر سال دنیا بھر میں اندازاً 303,000 مائیں اور 5 سال سے کم عمر 5.9 ملین بچے جاں بحق ہو جاتے ہیں جبکہ ان میں سے بیشتر کی جان بچائی جا سکتی ہے۔

The post ماں اور بچے کی صحت میں پاکستان پڑوسی ممالک سے پیچھے ہے، تحقیق appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2Erl7F9

لاہور میں بچوں کو ورغلا کر لے جانے والا ملزم گرفتار، دوسرا فرار

 لاہور:  گھر سے بھاگ کر آئے دو بچوں کو ورغلا کر زبردستی ساتھ لے جانے والے ایک شخص کو گرفتار کرلیا گیا جب کہ دوسرا فرار ہوگیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق لاہور میں ٹریفک وارڈنز اپنی ڈیوٹی پر تھے کہ انہوں نے دو اشخاص اور بچوں کو مشکوک جاننے پر روکا اور بچوں کی آہ و بکا پر ایک شخص پکڑا گیا جبکہ ساتھی فرار ہوگیا۔

سٹی ٹریفک پولیس کے ترجمان کے مطابق بچوں کی عمریں12اور14سال ہیں دونوں بچے کل رات کو لالہ موسیٰ سے بھاگ کر داتا صاحب پہنچے تھے، بچوں کے والدین کو اطلاع کر دی گئی ہے۔

ترجمان سٹی ٹریفک پولیس نے بتایا کہ افسران نے ٹریفک وارڈنز کے لیے نقد انعام اور تعریفی سند کا اعلان کردیا ہے، وارڈنز ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کو بھی یقینی بنائے ہوئے ہیں۔

The post لاہور میں بچوں کو ورغلا کر لے جانے والا ملزم گرفتار، دوسرا فرار appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2GybFkh

قاتل چوٹی کا غرور

۔۔۔۔۔**  تحریر : محمد اکرام بھٹی  **۔۔۔۔۔ کہا جاتا ہے کہ محبوب کو پالینا ہی صرف محبت نہیں ہے، محبوب کا ہو جانا بھی محبت کا اعلیٰ مرتبہ ہے، پولش کوہ پیما ٹام میکسوچ کی نانگا پربت سے محبت بھی کچھ ایسی ہی تھی، وہ اپنے محبوب کو قدموں میں نہ لاسکا تو خود اس...

The post قاتل چوٹی کا غرور appeared first on Samaa Urdu News.



from Samaa Urdu News http://ift.tt/2DRiJ9X

کرپٹ سیاستدان پر تاحیات پابندی لگنی چاہئے، قمر زمان کائرہ

پی پی پی رہنماء نے کرپشن اور جھوٹ پر تاحیات پابندی کی توثیق کردی، قمر زمان کائرہ نے سماء کے پروگرام ندیم ملک لائیو میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قانون سازی پارلیمنٹ کا کام ہے، کوئی شخص صادق اور امین کا سرٹیفکیٹ نہیں دے سکتا، مجرموں اور کرپشن میں ملوث افراد کیلئے پاکستان کی...

The post کرپٹ سیاستدان پر تاحیات پابندی لگنی چاہئے، قمر زمان کائرہ appeared first on Samaa Urdu News.



from Samaa Urdu News http://ift.tt/2BHtWb1

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خطاب

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دہشتگردی پر اپنا فوکس نمایاں کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین اور روس امریکی مفادات ، معیشت اور امریکی اقدار کو چیلنج کررہے ہیں، انھوں نے کہا کہ داعش کے زیر قبضہ صد فی صد علاقے آزاد کرالیے گئے ہیں ، صدر ٹرمپ نے اپنی جنوبی ایشیا کی پالیسی کے سیاق وسباق میں پاکستان کا ذکر کیے بغیر کہا کہ افغانستان میں امریکا کی فوج نئے ضوابط کے ساتھ لڑ رہی ہے اور معنی خیز انداز میں خبردار کیا کہ مصنوعی ڈیڈ لائنز بتا کر افغانستان میں دشمنوں کو چوکنا نہیں کریں گے۔

وہ یہ بھی بتا دیتے کہ دشمن کون ہے۔ واشنگٹن میں صدر ٹرمپ نے پہلے اسٹیٹ آف دی یونین سے خطاب میں کہا کہ اس بات کو کانگریس یقینی بنائے کہ داعش اور القاعدہ کے خلاف جنگ میں ہم دہشت گردوں کو گرفتار کرسکیں گے جب کہ بیرون ملک سے گرفتار کیے جانے والے دہشت گردوں سے دہشت گردوں والا سلوک کیا جانا چاہیے، انھوں نے اعلان کیا کہ گوانتاناموبے کا جیل خانہ کھلا رہے گا۔اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ بہتر تو یہ ہے ایسے دہشتگردوں کو اس جیل میں بھیج کر ان کا ٹرائل کیا جائے۔انھوں نے ایران وشمالی کوریا کی سرگرمیوں پر بھی نکتہ چینی کی۔

تاہم یہ بات خاص طور پر میڈیا مبصرین اور سیاسی حلقوں نے نوٹ کی کہ ٹرمپ کا انداز گفتگو کافی بدلا ہوا تھا، لاس اینجلس ٹائمز نے اسے اسٹرائیکنگ چینج قراردیا، تاہم انھوں نے چین کا جس تناظر میں حوالہ دیا وہ چین کی عظیم اقتصادی طاقت سے خائف ہونے کا اشارہ تھا۔ اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکی پالیسی میں دہشتگردی اہداف تو بدستور ٹرمپ انتظامیہ کے پیش نظر رہیں گے مگر دنیا امریکی سرد جنگ کا غالباً چین سے ٹکراؤ کے نئے امریکی ڈاکٹرائن کا نظارہ کریگی۔

چین سے تصادم اور روس و چین کو امریکی اقدار ، معیشت اور مفادات کا دشمن قراردینا خالی از علت نہیں،اس میں افغانستان اور بھارت  سے امریکا کے اقتصادی ،اسٹرٹیجک اور دفاعی پالیسی کے جھکاؤ کی تشویش ناک جھلک ملتی ہے، امریکی عزائم تبدیلی سے دوچار ہیں۔امریکی صدر نے کانگریس سے نئی قانون سازی کے ذریعے امیگریشن قوانین کو درست کرنے کا مطالبہ بھی کیا اور کہا کہ کھلی سرحدوں کا مطلب ملک میں منشیات اور گینگز کی آمد ہے، کانگریس امیگریشن نظام میں وہ خامیاں دور کرے جس کے ذریعے جرائم پیشہ گروہ امریکا میں آتے ہیں۔صدر ٹرمپ نے کہا کہ ہم سب مل کر امریکا کو مضبوط، محفوظ اور قابل فخر بنارہے ہیں۔

ہمارے سامنے غیرمعمولی چیلنجز تھے جو شاید کوئی تصور بھی نہ کرسکے۔ پچھلے ایک سال میں توقع سے بڑھ کر کامیابی ملی، ہمارا عزم ہے کہ امریکا کو عظیم تر بنایا جائے۔جوہری اثاثوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ہم ان کی ایسے حفاظت کریں گے جیسے کبھی کسی نے نہیں کی ہوگی، نیز یہ کہ ہم امریکی جوہری ہتھیاروں کو مزید جدید بنائیں گے۔

یہی ٹرمپ دنیا میں امن لانے کے دعوے کرتے تھے، اب کہتے ہیں کہ امریکا کے علاوہ دنیا میں کوئی اور قوم ایسی نہیں ہے جو بھاری چیلنجز کو قبول کرے اور ان کا سامنا کرے، ہمیں آپس کے اختلافات کو بھی ختم کرنا ہے تاکہ ہم ترقی کے لیے مزید آگے بڑھ سکیں، میرٹ کی بنیاد پر امیگریشن سسٹم لانا وقت کی ضرورت ہے۔ اراکین کانگریس کو مخاطب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ سیاست ایک طرف رکھیں اور کام مکمل کریں، کانگریس سے کہا کہ امیگریشن نظام میں خامیاں دور کریں، یقین دلایا کہ نئی قانون سازی کے ذریعے امیگریشن قوانین کو درست کریں گے۔ ٹرمپ کے خطاب میں پاکستان کو ڈو مور کی بازگشت سنائی نہیں دی، ہوسکتا ہے کہ پاکستانی بیانیہ کی بات ٹرمپ کے دل میں اتر گئی ہو، اسے خوش گمانی کہہ لیجیے کہ حقائق کا ادراک شاید امریکی گن بوٹ ڈپلومیسی پر غالب آنے لگا ہے، مگر خطے کا سیاسی وتزویراتی افق ابر آلود ہی رہے گا۔

بھارت کی خوشنودی کی خاطر امریکا کشمیر سمیت فلسطین، یمن ، روہنگیا مسلمانوں اور بدامنی و جنگ کے شعلوں میں لپٹے مشرق وسطیٰ کو کوئی روڈ میپ دینے سے قاصر نظر آتا ہے، لہذا احتیاط سے اس خطاب کے سنگین مضمرات پر ارباب اختیار کو غور وفکر کرنا چاہیے، عالمی بساط پر امریکا کوئی بھی جنگجویانہ چال چل سکتا ہے، افغانستان کے حوالہ سے امریکی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کابل انتظامیہ اپنے علاقے کا کنٹرول کھو رہی ہے۔

اس انتباہ میں کیا راز پنہاں ہے؟حقیقت یہ ہے کہ جنوبی ایشیا اور برصغیر کی صورتحال میں امریکا ثالثی پر تیار ہے ، نہ وہ بھارت اور افغانستان کو پاکستان سے مخاصمت اور الزام تراشیوں سے اجتناب ترک کرنے پر کوئی مثبت اور دیرپا تزویراتی  پیش رفت میں دلچسپی رکھتا ہے، اسے حقائق سے چشم پوشی مہنگی پڑیگی، اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں خطے کے حوالہ سے ٹرمپ کوئی واضح بات کرتے توبریک تھرو کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔ ٹرمپ کو اپنے ورلڈ ویوکو وسعت دینے کی ضرورت ہے ، امریکا افغانستان میں قیام سے زیادہ خطے کی حالت زار پر حقیقت پسندانہ نظر ڈالے۔دہشتگردی کی جنگ کے خلاف دنیا پاکستان کی قربانیوں کو تسلیم کرے۔

The post صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خطاب appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2rW6pU5

سوشل میڈیا اعتبار کھونے لگا

کچھ برس قبل کے مقابلے میں آج فیس بُک، ٹویٹر، انسٹاگرام، یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا ویب سائٹس کے صارفین کی تعداد کئی گنا بڑھ چکی ہے، مگر یہاں موجود مواد خاص طور سے خبروں پر اعتماد کرنے والوں کی شرح اتنی ہی نیچے آگئی ہے۔ ایک زمانے میں سوشل میڈیا پر شایع ہونے والی ہر خبر پر صارفین اعتماد کرتے تھے۔ اس اعتماد نے عرب دنیا میں احتجاج کی لہر کو جنم دیا جس کے نتیجے میں کئی ممالک میں حکومتیں بدل گئیں۔ تاہم اب سوشل میڈیا صارفین کا اعتبار کھوچکا ہے۔ اس کا اندازہ برطانیہ میں کیے گئے ایک سروے سے ہوتا ہے۔

سروے کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ سوشل میڈیا کا وہ دور گزرچکا جب اسے صارفین کا اعتماد حاصل تھا، اور یہاں شایع ہونے والی ہر خبر اور رپورٹ کو من و عن تسلیم کرلیا جاتا تھا۔ پھر اس جہان میں جُھوٹ کی مقدار بڑھنے لگی۔ مسلسل جھوٹ کی وجہ سے صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ اب صرف ایک چوتھائی برطانوی یہاں شایع ہونے والی خبروں کو سچ سمجھتے ہیں۔ یعنی ہر چار میں سے صرف ایک برطانوی سوشل میڈیا کو درست خبروں کے حصول کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ تین کے خیال میں یہاں ملنے والی خبریںکُلی یا جزوی طور پر غلط ہوتی ہیں۔

سروے کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ لوگ ایک بار پھر روایتی ذرایع ابلاغ کی جانب لوٹ رہے ہیں، اور مصدقہ خبروں کے لیے نیوز چینل اور اخبارات سے رجوع کرنے لگے ہیں۔ جُھوٹی خبروں اور پروپیگنڈے کے علاوہ بچوں پر منفی اثرات کے حوالے سے بھی سوشل میڈیا پر تنقید بڑھتی جارہی ہے۔

اوکسفرڈ یونی یورسٹی کی سوشل میڈیا سائیکولوجسٹ ایمی اوربن کہتی ہیں کہ سوشل میڈیا کمپنیاں اسی صورت حال کا سامنا کررہی ہیں جس کا روایتی ذرایع ابلاغ نے اپنی ابتدا میں کیا تھا۔ کسی بھی نئی ٹیکنالوجی میں لوگ بے حد دل چسپی لیتے ہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ جذبہ دھیما پڑتا چلاجاتا ہے۔

The post سوشل میڈیا اعتبار کھونے لگا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2DQrqku

فٹبال ورلڈ کپ ؛ روسی غیرملکیوں کی کھال اتارنے کے لیے تیار

دنیا کے مقبول ترین کھیل فٹبال کا ورلڈ کپ چودہ جون سے پندرہ جولائی تک روس میں منعقد ہوگا۔ ورلڈ کپ میں بتیس ممالک کی ٹیمیں شامل ہوں گی۔ ایک ماہ پر محیط ٹورٹامنٹ کے باسٹھ میچ گیارہ شہروں میں قائم بارہ اسٹیڈیمز میں کھیلے جائیں گے۔

فٹبال کے مقابلے دیکھنے کے لیے میزبان ملک میں دنیا بھر سے سیاحوں کی بڑی تعداد پہنچتی ہے، جس سے ملکی اور علاقائی معیشت کو فائدہ پہنچتا ہے۔ متعلقہ شہروں میں، جہاں میچ کھیلے جانے ہوتے ہیں، عارضی روزگار کے ان گنت مواقع پیدا ہوتے ہیں، خریدوفروخت بڑھ جاتی ہے، ہوٹل بھرجاتے ہیں اور عارضی رہائش گاہیں بھی وجود میں آجاتی ہیں۔ الغرض مقامی سطح پر کاروباری سرگرمیاں تیز ہوجاتی ہیں جن سے ملکی معیشت کو بہ طور مجموعی فروغ ملتا ہے۔

ورلڈ کپ کے مقابلے جن شہروں میں رکھے جاتے ہیں، وہاں کے تاجروں کی بن آتی ہے۔ روسیوں نے بھی غیرملکی سیاحوں کی کھال اتارنے کے لیے چُھریاں تیز کرلی ہیں۔ ہوٹل مالکان نے تو حد ہی کردی ہے۔ انھوں نے کمروں کے کرایے اٹھارہ ہزار گنا تک بڑھادیے ہیں۔ واضح رہے کہ ورلڈ کپ میں شامل ممالک کے شہری اپنی اپنی ٹیموں کے میچ سے لطف اندوز ہونے کے لیے ابھی سے ہوٹلوں میں کمرے بُک کروارہے ہیں۔ ایک برطانوی روزنامے کی تحقیق کے مطابق ہوٹلوں میں کرایے عام دنوں سے اٹھارہ ہزار گُنا تک بڑھادیے گئے ہیں۔

ورلڈ کپ میں انگلینڈ تیسرا میچ اٹھائیس جون کو بیلجیم کے خلاف کلینن گراڈ میں کھیلے گا۔ شہر کے گیسٹ ہاؤس تین افراد کی گنجائش والے اپارٹمنٹ کا ایک رات کا کرایہ ساڑھے چار ہزار ڈالر کے مساوی وصول کررہے ہیں۔ پاکستانی روپوں میں یہ رقم تقریباً پانچ لاکھ روپے بنتی ہے! عام دنوں میں اس اپارٹمنٹ کا یومیہ کرایہ چوبیس ڈالر کے مساوی ہوتا ہے۔

انگلینڈ اور بیلجیم کے درمیان یہ اہم میچ ہوگا، جو فاتح ٹیم کی دوسرے مرحلے میں رسائی کی راہ ہموار کردے گا۔ اسی اہمیت کے پیش نظر ہوٹل اور گیسٹ ہاؤس وہاں قیام کے خواہش مندوں سے منھ مانگے دام طلب کررہے ہیں۔ انگلینڈ اور بیلجیم کے جو شائقین ہوٹلوں، گیسٹ ہاؤسز اور اپارٹمنٹس میں قیام کی استطاعت نہیں رکھتے، وہ خیموں میں ٹھہر سکتے ہیں ! خیمے اسٹیڈیم سے نو میل کی دوری پر لگائے گئے ہیں۔ ان میں ایک رات قیام کرنے کے لیے نوّے ڈالر یعنی نوہزار روپے کے مساوی روبل ادا کرنے ہوں گے۔ عالمی مقابلوں کے لیے منتخب کردہ تمام شہروں میں یہی صورت حال ہے۔ ہر شہر میں مقابلوں کی تاریخوں میں ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز کے نرخ انتہاکو چُھو رہے ہیں۔

The post فٹبال ورلڈ کپ ؛ روسی غیرملکیوں کی کھال اتارنے کے لیے تیار appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2EurUxO

فون کی بیٹری 5 فی صد باقی رہ جانے پر چلنے والی مُنفرد ایپ

واٹس ایپ سے لے کر وی چیٹ اور اسکائپ تک، متعدد ایپلی کیشنز ہیں جن کے ذریعے انٹرنیٹ کے صارفین ایک دوسرے سے بات چیت کرسکتے ہیں یا تحریری پیغامات بھیج سکتے ہیں۔ بازار میں بات چیت یا پیغام رسانی کی سہولت فراہم کرنے والے سوفٹ ویئرز کی بھرمار ہے۔

اس صورت حال میں اگر کوئی اپنی ایپلی کیشن لانچ کرنا چاہے تو اس کے لیے صارفین کی توجہ حاصل کرنا مشکل ہوگا تا وقتیکہ وہ ایپلی کیشن پہلے سے موجود سوفٹ ویئرز سے منفرد نہ ہو۔ ’’ ڈائی وِدھ می‘‘ ایک ایسی ہی ایپلی کیشن ہے جس کی ایک خوبی اسے سب سے منفرد بناتی ہے۔ یہ چیٹ ایپ آپ صرف اسی وقت استعمال کرسکتے ہیں جب فون کی بیٹری ختم ہونے کے قریب ہو اور اس میں چارجنگ محض پانچ فی صد رہ گئی ہو! اس ایپلی کیشن کی وجۂ تسمیہ غالباً یہی خوبی ہے۔

ڈائی ودھ می چلانے کے لیے آن لائن کوئی اکاؤنٹ بنانے کی ضرورت نہیں۔ صارف اسے اوپن کرنے کے بعد فرضی نام سے ایک آن لائن چیٹ روم میں داخل ہوسکتا ہے اور نامعلوم افراد کے ساتھ گفتگو میں شریک ہوسکتا ہے۔ یہ بات چیت طویل وقت تک جاری نہیں رہ سکتی کیوں کہ اسمارٹ فون کی بیٹری زیادہ دیر تک ’ زندہ‘ نہیں رہ پائے گی اور فون کی اسکرین تاریک ہوجائے گی۔

ڈائی ودھ می اوپن کیے جانے پر سب سے پہلے بیٹری پر نظر ڈالتی ہے۔ اگر وہاں پانچ فی صد سے زیادہ چارجنگ موجود ہو تو یہ کُھلنے سے انکاری ہوجاتی ہے اور صارف سے کہتی ہے کہ پہلے وہ دوسری سرگرمیوں میں مصروف رہ کر بیٹری کو کمزور کرے، اور جب اس کی طاقت بیسویں حصے سے کم رہ جائے تو پھر اسے کھولے۔ اس منفرد ایپ کے تیارکنندگان کے مطابق کم بیٹری کی شرط رکھنے سے ان کا مقصد اسمارٹ فون کے یوزر کو اس فرسٹریشن سے بچانا ہے جو بیٹری کے ختم اور فون کے بند ہوجانے پر ہوتی ہے۔ ڈائی ودھ می کا استعمال کرتے ہوئے بیٹری کا اختتام مثبت اور خوش گوار انداز میں ہوگا۔

ڈائی ودھ می کے شریک خالق بیلجیم کے شہری ڈرائیز ڈی پورٹر کہتے ہیں کہ کسی کام سے انھیں دوسرے شہر جانا پڑا۔ وہاں وہ ایک ہوٹل میں مقیم تھے۔ یہ شہر ان کے لیے مکمل طور پر اجنبی تھا۔ شام کے وقت وہ مٹرگشت کے لیے ہوٹل سے باہر نکلے اور پھر واپسی پر راستہ بُھول گئے۔ سیل فون کو دیکھا تو اس کی بیٹری ختم ہونے والی تھی۔ وہ پریشان ہوگئے کہ سیل فون بند ہونے والا ہے، رات گہری ہوتی جارہی ہے اور وہ ہوٹل سے بہت دور ہیں۔ ان لمحات میں انھیں ایپ بنانے کا خیال آیا جو صرف بیٹری لَو ہونے پر کارآمد ہو۔ بعدازاں ڈرائیز نے اپنے دوست کے ساتھ اس ایپ کے بنیادی تصور پر تبادلۂ خیال کیا اور اسے ایک پبلک چیٹ روم کی شکل دینے کا فیصلہ کرلیا۔

یہ ایپلی کیشن ایپل اسٹور سے ڈاؤن لوڈ کی جاسکتی ہے۔ ڈائی ودھ می اسمارٹ فون کے صارفین میں مقبول ہورہی ہے۔ اب تک اس کے ذریعے پچاس لاکھ سے زائد جملوں کا تبادلہ کیا جاچکا ہے۔

The post فون کی بیٹری 5 فی صد باقی رہ جانے پر چلنے والی مُنفرد ایپ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2FxJqAQ

موبائل فون کا استعمال؛ عمومی رویئے نے سہولت کو خرافات بنا دیا

موبائل فون بلاشبہ دور حاضر کی اہم ترین ٹیکنالوجی قرار دی جا سکتی ہے۔ موبائل فون نے انسانی زندگی کا رخ ہی بدل دیا ہے۔ تقریباً 4دہائیوں قبل جب موبائل فون ایجاد ہوا تو یہ اتنا بھاری تھا کہ اس کو بیگ میں رکھنا پڑتا تھا اور قیمت بھی اتنا کہ صرف امراء کے پاس ہی ہوتا تھا۔

اوائل 90ء کی دہائی تک موبائل فون ہر کسی کی دسترس میں نہ تھا۔ یہ وہ دور تھا، جب پاکستان میں پجارو گروپ کے بعد موبائل گروپ کا سورج طلوع ہو رہا تھا اور یہ خبر اخبارات کی سرخی کے لئے اہم ہوتی تھی کہ فلاں سیاست دان یا امیر آدمی کے پاس دو دو موبائل سیٹ ہیں۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے موبائل فون انسانی زندگی پر یوں راج کرنے لگا کہ ہر چھوٹے بڑے کے پاس موبائل فون موجود ہے اور ہم اس کے بغیر خود کو ادھورا محسوس کرتے ہیں۔

تاجر سے مزدور تک سب کے پاس مختلف قیمتوں، رنگوں اور کمپنیوں کے فرق کے ساتھ موبائل فون موجود ہے۔ کاروباری سرگرمیاں ہوں یا عزیزو اقارب سے رابطے، موبائل فون کے بغیر روزمرہ زندگی کا جیسے کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ موبائل کے استعمال کا رجحان اس قدر زور پکڑ چکا ہے کہ دنیا میں اب انسانوں کی تعدادکم اور موبائل کی بڑھ رہی ہے۔

موبائل اور وائرلیس انڈسٹری کے بارے میں تحقیق کرنے والے ادارے پورشیو ریسرچ نے کہا تھا کہ 2012ء کے آخر تک دنیا بھر میں موبائل فونز استعمال کرنے والوں کی تعداد 6 ارب 50 کروڑ ہو جائے گی۔ دی گیبان پوسٹ ویب سائٹ نے پورشیو ریسرچ کے حوالے سے بتایا کہ 2016ء تک موبائل فونز استعمال کرنے والوں کی تعداد 8 ارب پچاس کروڑ ہونے کا امکان ہے اور آج یہ تعداد اس سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ باقی دنیا کے ساتھ ساتھ یہی حال پاکستان کا بھی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریباً 13 کروڑ 50 لاکھ شہری موبائل استعمال کرنے والے ہیں۔ گزشتہ مالی سال 2016-17 تک پاکستان میں درآمد کیے جانے والے موبائل فونز کی مالیت لگ بھگ 21ارب روپے سے زائد ہے۔ پاکستان میں ماہانہ لاکھوں نئی سمیں ایکٹیویٹ کی جارہی ہیں۔ ان اعداد و شمار کی روشنی میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ہمارے لئے روٹی کم اور موبائل فون زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی بھی چیز اچھی یا بری نہیں ہوتی بلکہ اس کا استعمال اسے اچھا یا برا بناتا ہے۔ یہی حال موبائل فون کا بھی ہے جس کی ایجاد نے عام آدمی کی زندگی کو تو آسان بنا دیا لیکن ضرورت کی چیز کے غیر ضروری استعمال نے آج ہمیں اخلاقی اور سماجی پستیوں میں دھکیل دیا ہے۔ یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ موبائل فون کی وجہ سے اخلاقی اور سماجی جرائم میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔ معمولی چوری سے لے کر دہشت گردی تک موبائل فون کا استعمال عام ہو چکا ہے۔ موبائل کا غلط اور مجرمانہ استعمال ہمارے معاشرے میں بہت سی اخلاق سوز برائیوں اورگھمبیر مسائل کو جنم دے رہا ہے۔ جن میں سے چند ایک کا ہم یہاں ذکر کر رہے ہیں۔

دہشت گردی سمیت دیگر جرائم میں اضافہ

موبائل فون کی فراوانی سے دہشت گردی، اغواء برائے تاوان، راہزنی، ڈکیتی اور چوری جیسے جرائم روز بہ روز بڑھ رہے ہیں۔ موبائل نے ہر شہری کو قیمتی بنا دیا ہے۔ پہلے ایک عام آدمی رات کو جہاں مرضی گھوم پھر سکتا تھا، لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ ڈکیتی کرنے والے یہ ضرور جانتے ہیں کہ اس شخص کے پاس اور کچھ ہو یا نہ ہو موبائل فون ضرور ہوگا۔ موبائل چھیننے کے واقعات اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ ان کی تعداد گننے میں نہیں ہے۔ اس کے علاوہ دہشت گردی کا ناسور جو پہلے ہی ہمارے ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے در پر ہے، اس موبائل فون کی وجہ سے اس میں بھی شدت اور جدت آگئی ہے۔ ہمارے سکیورٹی ادارے بھی اس بات کی متعدد بار تصدیق کرچکے ہیں کہ موبائل فون دہشت گرد کا ہتھیار بن چکا ہے۔

دہشت گرد موبائل فون کے ذریعے بڑے بڑے دھماکے کرتے رہے ہیں جن میں ان کا تو کوئی نقصان نہیں ہوتا تھا البتہ ایک ہی واقعے میں ہماری درجنوں قیمتی جانیں ضایع ہو جاتی تھیں۔ دہشت گرد موبائل فون کوگھریلو ساختہ بم IED (improvised explosive device) پھاڑنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس میں ہوتا یہ ہے کہ بم کا ٹریگر موبائل کی بیٹری سے جوڑ دیا جاتا ہے، پھر جب کال کی جائے تو بم کہیں بھی رکھا ہو، اس کا ٹریگر آن ہو کر ڈیٹونیٹر پھاڑ دیتا ہے اور اس کے ساتھ ہی ڈیٹونیٹر اصل بم پھاڑ کر تباہی پھیلا دیتا ہے۔

موبائل فون کے ذریعے دھماکہ خیز مواد اڑانے کا یہ عمل موبائل فون پر کال کرنے کے علاوہ انفراریڈ اور بلیوٹوتھ کے ذریعے بھی ہو سکتا ہے لیکن ان دونوں صورتوں میں سگنل رینج انتہائی کم ہوتی ہے۔ اور اگر ایسا کیا جائے تو جو شخص یہ کام کرنے جا رہا ہے وہ خود بھی اس کی زد میں آجائے گا۔ اسی وجہ سے دہشت گرد موبائل فون پر کال کے ذریعے بم اڑاتے ہیں کیونکہ کال تو ملک بھر میں کہیں سے بھی کی جاسکتی ہے۔

غرض موبائل کی شکل میں مجرموں کے ہاتھ ایک ہتھیار لگ گیا۔ اس طریقے کے ذریعے اڑتے جہاز میں بھی بم پھاڑنا ممکن ہے۔ تاہم موبائل فون کمپنی اپنی سروس بند کر دے یا اس کے ٹاوروں سے نکلنے والے سگنل جام کردیئے جائیں تو پھر گھریلو ساختہ بم کام نہیں کر سکتا۔ نیز موبائل فون کے ذریعے دہشت گرد اپنے سہولت کاروں کے ساتھ لمحہ بہ لمحہ رابطے میں بھی رہتے ہیں، جیسا کہ ہم نے سانحہء اے پی ایس پشاور اور دہشت گردی کے دیگر کئی واقعات میں دیکھا کہ وہ افغانستان سے موبائل فون کے ذریعے براہء راست ہدایات وصول کر رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کے خطرے کی صورت میں موبائل فون سروس بند کردی جاتی ہے۔

معاشی نقصان

موبائل فون کا استعمال ضرورت سے زیادہ فیشن کے طور پر کیا جارہا ہے اور فیشن کے معاملے پر کوئی بھی سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شخص دوسرے سے کہیں اچھا اور مہنگا موبائل رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ فیشن کی یہ دوڑ معاشی نقصان کا باعث بن رہی ہے۔

صحت انسانی پر بد اثرات

موبائل کے استعمال سے جسمانی بیماریوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ماہرین کے مطابق ضرورت کے برعکس موبائل فون کے استعمال کی زیادتی کے سبب ذہنی دباؤ، نیند میں کمی، دل، سردرد سمیت کئی دوسری بیماریاں سر اٹھاتی ہیں۔

تعلیمی نقصان

موبائل فون کا سب سے زیادہ بے جا استعمال کرنے والے نوجوان ہیں، جو تعلیم سے منسلک ہوتے ہیں۔ موبائل فونز کے مختلف پیکیجز کی وجہ سے رات رات بھر بات کرنے والے صبح وقت پر اسکول، کالج پہنچ پاتے ہیں نہ کلاس میں دل جمعی سے پڑھ پاتے ہیں۔ پھر تعلیمی اداروںمیں جہاں پر موبائل کے استعمال پر کوئی روک ٹوک یا پابندی نہیں ہے، وہاں طلبہ دوران لیکچر موبائل پر ایس ایم ایس یا گیمز سے مستفید ہورہے ہوتے ہیں۔ جس تعلیمی ادارے میں موبائل فون لے کر آنے پر پابندی ہو وہاں طلبہ پڑھائی کی بجائے موبائل کو چھپا کر ایس ایم ایس یا گیم وغیرہ پر اپنا وقت ضایع کر تے رہتے ہیں۔

فحاشی و عریانی میں اضافہ

موبائل فون کے غیر ضروری استعمال سے معاشرے میں فحاشی اور عریانی میں بھی غیرمعمولی حد تک اضافہ ہوا ہے۔ موبائل فونز میں ایک سے زائد سموں کے ساتھ کیمرے، ایم پی تھری اور فور، انٹرنیٹ سمیت کئی دوسری ایسی چیزیں شامل ہوتی ہیں کہ جن کا موبائل سے دور تک کا بھی واسطہ نہیں، لیکن یہ نوجوان نسل کی اخلاقی تباہی کا باعث ضرور بن رہی ہیں۔ مثال کے طور پر ایسے موبائل جن میں کیمرے، آڈیو، ویڈیو اور انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے، اس سے غیر اخلاقی ویڈیوز اور کالز ریکارڈنگ کر کے مطلوبہ افراد کو بلیک میل کرکے ناجائز مطالبات منوائے جاتے ہیں۔ فون پر اپنی شناخت چھپا کر بات کرنے سے ایسے ایسے اخلاق سوز واقعات پیش آتے ہیں کہ راز افشا ہونے پر لوگ خودکشی تک چلے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ فحش قسم کی تصویریں اور ویڈیو کلپس سے بھی معاشرے پر برے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

موبائل فون کے غلط استعمال کی اور بھی بہت سی خرابیاں ہیں، جن کو شمار کرنا ابھی باقی ہے۔ مگر یہاں پر ان پانچ اقسام کے نقصانات کا ذکر کیا گیا ہے جو ہم عمومی طور پر معاشرے میں دیکھ اور جھیل رہے ہیں۔ ان نقصانات سے بچنے کے لئے کچھ ایسی تدبیریں اختیار کرنا ضروری ہے جن کی موجودگی میں ہم اپنی ضرورت کی اس اہم ایجاد کو استعمال تو کریں مگر اس کے معاشرے پر پڑنے والے برے اثرات سے بھی بچا جاسکے۔ اس مقصد کے لئے ہمیں عوامی، حکومتی اور موبائل کمپنیوں کی سطح پرکام کرنا پڑے گا، کیونکہ اصلاح احوال کی ضرورت کو پس پشت ڈالنے والے ملک کبھی پائندہ اور تابندہ نہیں رہتے۔ عوامی سطح پر والدین کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو موبائل فون دینے سے پہلے اس بات کا ضرور خیال رکھیں کہ آیا ان کے بچوں کو واقعی موبائل کی ضرورت ہے۔

پھر موبائل فون دینے کے بعد ان کے پاس اس چیز کا ریکارڈ بھی موجود ہو کہ ان کا وہ عزیز جس کو موبائل فون دیا گیا ہے وہ کس سے بات کر رہا ہے؟ کیا بات کر رہا ہے؟ اور آیا اس کے موبائل فون پر کوئی اس کو پریشان تو نہیں کر رہا۔ والدین خصوصاً ماںکو چاہیے کہ کم عمر لڑکیوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت بِتاتے ہوئے ان کے مسائل جاننے کی کوشش کریں۔ والدین اور اساتذہ کو نوجوان نسل کو سیل فون اور دیگر ٹیکنالوجیز کے مثبت اور منفی استعمال سے بھی آگاہ کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ نوجوان اپنے وقت کو موبائل کی فضول کالوں اور غیر اخلاقی حرکات سے ضائع نہ کریں۔ بلکہ اپنی مکمل توجہ اپنی تعلیم یا ادارے کے امور پر مرکوز رکھیں تاکہ مہنگائی اور کرپشن کے اس دور میں کم از کم اپنے بڑھتے اخراجات کو پورا کیا جاسکے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ منفی سر گرمیوں سے دور رکھنے کیلئے نوجوانوں کو مثبت اور تعمیری مشاغل میں مصروف رکھنا انتہائی ضروری ہے۔

دوسری جانب حکومتی سطح پر سکیورٹی اداروں کو موبائل فون کے غلط استعمال کو ختم کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ موبائل سم کے اجراء کیلئے بائیو میٹرک کی طرح کچھ سخت شرائط عائد کی گئیں ہیں۔ اس ضمن میں وزارت داخلہ اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن نے کچھ اقدامات کئے ہیں، جو خوش آئندہ ہیں۔ ان اقدامات سے عوام اور موبائل کمپنیوں کو کچھ مشکل بھی پیش آئی، لیکن ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ہمیں خوش دلی کے ساتھ ان مشکلات کا سامنا کرنا چاہیے۔ پی ٹی اے کی ہدایت پر ملک بھر میں دکانوں پر سموں کی فروخت بند کر دی گئی ہے جس کے باعث پاکستان کی موبائل کمپنیوں کی سموں کی فروخت میں کمی آئی۔

روزانہ کی بنیاد پر پہلے جتنی سمیں فروخت ہوتی تھیں، وہاں اب ان کی فروخت تقریباً نصف پر آگئی ہے۔ کمپنیوں کی طرف سے مختلف اقسام کے پیکیجزکے ذریعے لوگوں کو موبائل فون کے زیادہ استعمال کی ترغیب کے رجحان کو ختم کیا جائے۔ 18سال قبل موبائل کال 15روپے کی اور سموسہ 50پیسے کا تھا جبکہ آج صورتحال یہ ہے کہ موبائل کال50 پیسے کی اور سموسہ 20روپے کا ہوچکا ہے۔ اس کے ساتھ ایس ایم ایس بنڈلز جیسے پیکیجز بھی موبائل فون کے استعمال میں زیادتی کو فروغ دے رہے ہیں۔ آج بھی دنیا بھر میں پاکستان کے علاوہ تقریباً سبھی ترقی یافتہ ممالک میں ٹیلی فون کی ان کمنگ کال اور ایس ایم ایس پر کوئی سبسڈی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک عام صارف کسی انجانے نمبر سے آئے ہوئے ایس ایم ایس کو کھولنے سے پہلے سوچتا ضرور ہے۔ پاکستان میں بھی موبائل کمپنیوں کو اس ملک کی بقاء و سلامتی کے لئے اپنا بھر پور کردار ادا کرنا ہوگا۔

The post موبائل فون کا استعمال؛ عمومی رویئے نے سہولت کو خرافات بنا دیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2nuItBW

چارسدہ میں لڑکی کی نازیبا وڈیو بنانے پر آئی جی کا نوٹس

پشاور: خیبرپختونخوا پولیس کے سربراہ صلاح الدین محسود نے چارسدہ میں لڑکی کی برہنہ ویڈیو بنانے کے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے ملزمان کی فوری گرفتاری کا حکم دے دیا ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق چارسدہ کے تھانہ پڑانگ  کی حدود میں 15 سالہ لڑکی سے مبینہ زیادتی کی کوشش کا مقدمہ مقامی تھانے میں درج کرلیا گیا۔ متاثرہ لڑکی عائشہ نے پولیس کو بیان دیا کہ 2 لڑکے واصف اور اعظم اچانک گھر میں گھس آئے اور زیادتی کی کوشش کی جب کہ لڑکوں نے مجھے برہنہ کرکے ویڈیو بھی بنائی۔

یہ خبر بھی پڑھیں: عاصمہ کو ملزم نے پہلے بھی قتل کی دھمکیاں دی تھیں

لڑکی کی شکایت پر پولیس نے نامزد لڑکوں کے خلاف مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کرتے ہوئے معاملے کی تفتیش شروع کردی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ میڈیکل رپورٹس میں لڑکی سے زیادتی ثابت نہیں ہوئی تاہم وہ معاملے کی تحقیقات کررہے ہیں۔

دوسری جانب میڈیا پر خبر نشر ہونے پر آئی جی خیبرپختونخوا صلاح الدین محسود نے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے ملزمان کی فوری گرفتاری کا حکم دے دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ لڑکی کے گھر میں گھسنے والے ملزمان پڑوسی تھے جو اب فرار ہوگئے ہیں اور ان کی گرفتاری کے لیے ڈی پی او کو ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔

The post چارسدہ میں لڑکی کی نازیبا وڈیو بنانے پر آئی جی کا نوٹس appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2BH3wWI

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی سرکاری افسران پر پیسوں کی بارش

پشاور: خیبرپختونخوا پولیس اور بیورو کریسی کی کارکردگی بھلے کسی کو نظر نہ آئے لیکن وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے افسران کےلئے خزانے کے منہ کھول دیے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے شاہانہ نوازشیں کرتے ہوئے افسران کی تنخواہ میں لاکھوں روپے اضافہ کردیا۔ چیف سیکریٹریری کےلئے ماہانہ 4 لاکھ الاؤنس جبکہ آئی جی...

The post وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی سرکاری افسران پر پیسوں کی بارش appeared first on Samaa Urdu News.



from Samaa Urdu News http://ift.tt/2nt3Qnd

عرب ملک کا خلاء میں اسپتال بنانے کا اعلان

دبئی : متحدہ عرب امارات نے خلاء میں پہلا اسپتال بنانے کا اعلان کردیا۔ متحدہ عرب امارات کی وزارت صحت نے نجی سیکٹر کی شراکت سے ایک انوکھے منصوبے کے آغاز کا اعلان کردیا، جو عالمی سطح پر اپنی نوعیت کا اولین منصوبہ شمار کیا جارہا ہے۔ منصوبے کے تحت خلاء میں اسپتال قائم کیا...

The post عرب ملک کا خلاء میں اسپتال بنانے کا اعلان appeared first on Samaa Urdu News.



from Samaa Urdu News http://ift.tt/2DPRArY

کیپ ٹاؤن ہے یا کراچی ! ساحلی شہروں کے باسی پانی کے لئے دربدر

کیپ ٹاؤن جنوبی افریقا کا ساحلی شہر ہے۔ دل کش ساحل اور خوب صورت نظاروں سے سجا یہ شہر غیرملکی سیاحوں کے لیے خاص کشش رکھتا ہے۔ ہر سال سیاحوں کی بڑی تعداد کیپ ٹاؤن کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے لیے پہنچتی ہے، مگر اب سیاح یہاں کا رُخ کرنے سے کترانے لگے ہیں۔ سرشام جو شہر رنگینیوں میں ڈوب جاتا تھا، اب اس کی رونقیں ماند پڑگئی ہیں۔ کیپ ٹاؤن شہرکی تصاویر اور ویڈیوز دیکھ کر لگتا ہے جیسے یہ شہر کیپ ٹاؤن نہیں رہا بلکہ کراچی بن گیا ہے۔ صبح سے شام تک لوگ ہاتھوں میںگیلن، کنستر، ڈبے اور اسی طرح کے بڑے سمانے یعنی کنٹینر لیے گھومتے نظر آتے ہیں۔ ان کا مقصد ایک ہی ہوتا ہے، پانی کا حصول!

جی ہاں، جنوبی افریقا کے دوسرے بڑے شہر کے باسی پانی کی بُوند بُوند کو ترس گئے ہیں۔گھروں میں لگے ہوئے سرکاری کنکشن سے پانی مہیا تو ہوتا ہے مگر صرف تھوڑی دیر کے لیے، اور اس مختصر عرصے میں جمع ہونے والا پانی گھریلو ضروریات کے لیے ناکافی ثابت ہوتا ہے، چناں چہ شہری پانی کی تلاش میں بھٹکنے پر مجبور ہیں۔

کیپ ٹاؤن کی حدود میں ڈیولزپیک نامی قصبہ ہے۔ اسی نام کی پہاڑی کے دامن میں آباد قصبے کے قریب چشمہ بہتا ہے۔ عام دنوں میں شاذ ہی کوئی یہاں کا رُخ کرتا ہو مگر اب یہاں لوگوں کی طویل قطاریں نظر آتی ہیں جو پانی بھرنے کے لیے اپنی باری کے منتظر ہوتے ہیں۔ قلت آب کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کئی کئی گھنٹے بعد ایک شخص کی پانی بھرنے کی باری آتی ہے۔   یوں شہر کے باسی اپنے کام کاج کے علاوہ یومیہ کئی گھنٹے پانی کی تلاش کے لیے وقف کردینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

بھارتی کرکٹ ٹیم ان دنوں جنوبی افریقا کے دورے پر ہے۔ کیپ ٹاؤن میں کھیلے گئے ٹیسٹ میچ کے دوران بھارتی کھلاڑیوں کو ہدایت کی گئی تھی کہ پانی کم سے کم استعمال کریں اور شاور کے نیچے دو منٹ سے زیادہ نہ کھڑے ہوں۔ اس ہدایت کی وجہ قلت آب تھی جو ہر دن گزرنے کے ساتھ شدید ہوتی جارہی ہے۔ پانی کی گھٹتی ہوئی رسد اور طلب کے مابین بڑھتے ہوئے فرق کے تناظر میں لگائے گئے تخمینوں کے مطابق بارہ اپریل کو کیپ ٹاؤن میں پانی بالکل ختم ہوجائے گا۔ اس دن کے لیے ’ڈے زیرو‘ کی اصطلاح استعمال کی جارہی ہے۔

کیپ ٹاؤن کی میئر پیٹریشیا ڈی لیلے کہتی ہیں کہ ہم ’ پوائنٹ آف نو ریٹرن ‘ پر پہنچ گئے ہیں، چند روز کے بعد کیپ ٹاؤن کے باسی حقیقتاً پانی کی بوند بوند کو ترس جائیں گے۔

جنوبی افریقا کو تاریخ کی بدترین خشک سالی کا سامنا ہے۔ تین سال کے دوران وہاں برائے نام بارش ہوئی ہے۔ ملکی ضروریات پہلے سے ذخیرہ شدہ پانی سے پوری کی جارہی ہیں۔کیپ ٹاؤن کو جس ذخیرے سے پانی فراہم کیا جاتا ہے وہ ختم ہونے کے قریب ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ اپریل کے مہینے میں کسی بھی دن شہر کو پانی فراہمی بند ہوجائے گی۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو پھر کیپ ٹاؤن پانی سے محروم ہونے والا دنیا کا پہلا میٹروپولس سٹی یعنی بڑا شہر ہوگا۔ واضح رہے کہ کیپ ٹاؤن کی مجموعی آبادی بیالیس لاکھ کے قریب ہے۔

ذخیرۂ آب سے پانی کی فراہمی معطل ہونے کی صورت میں یہ منصوبہ بندی کی گئی ہے کہ مقامی حکومت کی زیرنگرانی مخصوص مقامات پر واٹر ٹینکر کھڑے کیے جائیں گے اور ہر شہری کو پچیس لیٹر پانی یومیہ فراہم کیا جائے گا۔ ٹینکروں کی حفاظت کے لیے مسلح محافظ بھی تعینات کیے جائیں گے۔

قلت آب کی وجہ سے کیپ ٹاؤن کے شہریوں میں تشویش انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ سب کی نگاہیں ’ ڈے زیرو‘ کی امد پر لگی ہوئی ہیں کہ کب ان کے گھروں میں نصب نلکے پانی دینے سے انکاری ہوتے ہیں۔ پانی کی فراہمی منقطع ہوجانے کی صورت میں حکومت نے فراہمیٔ آب کے لیے جو منصوبہ بندی کی ہے، اس سے شہری مطمئن نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بیالیس لاکھ کی آبادی کو واٹر ٹینکروں کے ذریعے کیسے پانی دیا جائے گا، طویل قطاروں کو کیسے کنٹرول کیا جائے گا، اور کیا ہم سارے کام کاج چھوڑ کر صرف پانی لینے کے لیے قطاروں میں کھڑے رہیں گے۔

کیپ ٹاؤن کے شہریوں کی پریشانی کے خاتمے کا دور دور تک امکان ظاہر نہیں کیا جارہا، کیوں کہ ماہرین موسمیات رواں سال بھی بارش نہ ہونے کی پیش گوئی کررہے ہیں۔

The post کیپ ٹاؤن ہے یا کراچی ! ساحلی شہروں کے باسی پانی کے لئے دربدر appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2EvYyiZ

کم خوابی کا تیزی سے پھیلتا ہوا مرض

 آج کل جس کا حال پوچھیں وہ شب بیداری کا مارا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی نے انسان کو جہاں آسائشوں اورسہولیات کا عادی بنا دیا ہے، وہیں اس دور میں رہنے والوں کی نیندیں بھی اڑا کر رکھ دی ہیں، جنھیں اپنی الیکٹرونک ڈیوائسسز سے اس قدر لگاؤ ہوچکا ہے کہ اب اس کے بغیر ایک پل کاٹنا مشکل لگتا ہے۔

لوگوں کی چہروں کی رونقین اسمارٹ فونز کی نیلی روشنیوں میں کہیں گم ہو کر رہ گئی ہیں اور آہستہ ہستہ اس مرض میں افاقہ آنے کے بجائے اس کی علامات شدید تر ہوتی جا رہی ہیں۔ ان دنوں جو روایت عام ہو چلی ہے اس کے مطابق، اب لوگ بالمشافہ ملاقات کے بجائے فاصلے سے ملنا زیادہ پسند کرنے لگے ہیں۔

دنیا کے طول و ارض میں بسنے والوں کے لیے خیالی دنیا میں ملاقات کے لیے دن اور رات کی کوئی قید نہیں ہے۔ نتیجتاً شب بیداری کا مرض دنیا کے اس کونے سے اس کونے تک ایک وبائی شکل کی صورت میں پھیلتا جارہا ہے۔ وائس آف امریکہ کی رپورٹ کے مطابق صرف ایک سال کی مدت کے دوران نیند کی کمی کا شکار افراد کی تعداد میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے جس کے لیے ماہرین الیکٹرانک ڈیوائسسز، آئی پیڈ، اسمارٹ فونز، ٹیبلیٹ کو مورد الزام ٹہراتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ رات کو سونے سے ایک گھنٹہ یا دوگھنٹے پہلے تک موبائل فونز اور لیپ ٹاپ ,آئی پیڈ جیسی ڈیوائسسز کا استعمال انسان کی نیند میں خلل اور بے سکونی پیدا کرتا ہے۔ اسکرین سے خارج ہونے والی نیلی روشنیاں غنودگی کو کم کرتی ہیں اورسونا دشوار بنا دیتی ہیں۔ ایک بالغ فرد کی اوسط نیند کا دورانیہ ساڑھے سات گھنٹے سے آٹھ گھنٹے طویل ہونا چاہیئے۔ لیکن سات گھنٹے سیکم نیند کو مسائل کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا نیند کی کمی کا شکار ہونا صحت کے مختلف مسائل مثلا ذیابیطس، موٹاپا اور کینسر جیسے موذی مرض کا خطرہ پیدا کر سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گیجٹس سے خارج ہونے والی ایل ای ڈی روشنیاں یا نیلی روشنیاں ہماری جسم کی قدرتی گھڑی کے توازن کو بگاڑ دیتی ہیں۔ مصنوعی روشنی کی موجودگی میں گہری نیند کے باعث بننے والے ہارمون، ‘میلا ٹونین’ کی مقدار کم ہو جاتی ہے جس سے بے خوابی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ سونے سے قبل ایسی ڈیوائسسز کے استعمال سے پر ہیز کیا جائے۔

ان کے مطابق اچھی اور گہری نیند کے متلاشی افراد کو اگلے روز کی مصروفیات کی ایک فہرست بنا لینی چاہیئے اس طرح دماغ پر زیادہ بوجھ نہیں ہوگا یا پھر رات میں اگر کیلا کھا لیا جائے تو اس سے بھی افاقہ حاصل ہو سکتا ہے کیونکہ کیلے کارپوہائیڈریٹ اور پٹھوں کو آرام پہنچانے والی معدنیات سے مالا مال ہے۔ اگر پھر بھی نیند نہیں آتی ہے تو دماغ کو تھکا کر سلانے کے لیے ضروری ہے کہ کچھ دیر کے لیے حروف تہجی سے جانوروں کے نام دہرائے جائیں یا پھر جگسا پزل بنانا بھی نیند لانے کے حربے کے طور پر کامیاب خیال کیا جاتا ہے۔

ایک امریکی مفکر کی کہاوت ہے کہ ، رات میں جلدی سونے اور صبح سویرے بیدار ہونے کی عادت ایک شخص کو تندرست ، ذہین اور دولتمند بنا دیتی ہے۔

جدید تحقیق کے مطابق نیند کے سائیکل یا حیاتیاتی گھڑی میں تبدیلی کا اثر ہمارے جسم کی ہرچیزکو متاثر کرتا ہے۔ رات کی شفٹ میں کام کرنے سے جسم کی اندرونی گھڑی کا توازن بگڑ جاتا ہے بلکہ عمومی طور پر سونے کے اوقات میں جاگنے کی وجہ سے ہماری جینیات کو نقصان پہنچتا ہے جس کی وجہ سے صحت سے متعلق کئی مسائل جنم لے سکتے ہیں۔

گزشتہ کئی تحقیقوں میں بھی رات کی شفٹ میں کام کرنے والوں میں نیند کی کمی کی وجہ سے ذیابیطس، دل کے دورے اور کینسر کے خطرے کی نشاندہی کی گئی تھی تاہم ماہرین نے کہا کہ ایک رات جاگ کر کام کرنے کے منفی اثرات ڈی این اے کے فطری اجزائے ترکیبی میں انتہائی تیزی سے بگاڑ کی صورت پیدا کرتے ہیں۔ ایک نئی تحقیق کے مطابق نیند کے سائیکل یا حیاتیاتی گھڑی میں تبدیلی کا اثر ہمارے جسم کی ہرچیز کو متاثر کرتا ہے جس سے ہمارے جسم کا درجہ حرارت، ہارمونز، جسمانی صحت، موڈ اور دماغ کے افعال میں بھی تبدیلی ظاہر ہوتی ہے۔

برطانوی محققین نے 22 شرکاء کوایک ایسی جگہ پر رکھا گیا جہاں دن کی روشنی نہیں پہنچتی تھی اور رات کا سا اندھیرا چھایا رہتا تھا مشاہدے کا حصہ بننے والے افراد دن کی شفٹ میں کام کرنے والے ملازمین تھے جن کے سونے کے معمولات کو رات کی شفٹ میں کام کرنے والوں میں تبدیل کیا گیا جس کے بعد ان کے خون کے نمونے حاصل کیے گئے۔ جب ایک رضا کار نے رات کی شفٹ میں کام کرنا شروع کیا تو اس کی جینیاتی ٹیوننگ تبدیل ہوگئی خون کے نمونوں سے ظاہر ہوا کہ سیکیڈین کلاک رکھنے والی جین کی سرگرمیوں میں مسلسل کمی واقع ہو رہی تھی۔

ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جسم میں موجود ہرٹشو دن بھر اسی گھڑی کیساتھ تال میل کو برقرار رکھتا ہے۔ اس امر کی وضاحت یوں کی گئی کہ اسے ایک قسم کی افراتفری کہا جا سکتا ہے یا پھر اس کی مثال ایک ایسے گھر میں رہنے والوں کی ہے جن کے ہر کمرے میں گھڑی موجود ہے لیکن ہر گھڑی غلط وقت بتا رہی ہے جس کے نتیجے میں گھر والوں کے لیے وقت کا تعین کرنا مشکل ہو گیا ہے اور نتیجتاً گھر کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔

اسی طرح جسم کی حیاتیاتی گھڑی میں چھیڑ چھاڑ کا انجام بالآخر ہم آہنگ جین کوغیر متوازن کرنے پر تمام ہوتا ہے۔ انسانی جسم میں تقریبا 6 فیصد ایسی جینز ہیں جن میں یہ قدرتی گھڑی موجود ہے جن کی سرگرمی دن کے بعض اوقات کے لیے مخصوص ہوتی ہے ان میں کچھ سیکیڈین جین رات میں فعال ہوتی ہیں جبکہ کچھ جین دن کے وقت زیادہ فعال رہتی ہیں تاہم نتیجے سے پتا چلا کہ 97 فیصد سے زائد متوازن اور ہم آہنگ جین نیند کی قدرتی ہم آہنگی سے محروم ہو چکی تھی جس سے اس بات کی وضاحت بھی ہوتی ہے کہ بے قاعدہ شفٹ میں کام کرنا یا جیٹ لاگ ہونے کی صورت میں ہمیں کیوں اتنا برا لگتا ہے۔ اس تحقیق میں شامل ایک محقق کے مطابق ’’ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ نیند کے فطری عمل کو متاثر کرنے سے صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں لیکن ہمارا نتیجہ اس بات کو سمجھنے کے لیے پہلی سیڑھی ہے کہ قدرتی نیند کا عمل متاثر ہونے پر حیاتیاتی گھڑی اورسیکیڈین کلاک رکھنے والی جین میں کون سی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔‘‘

ایک آن لائن اخبار میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق بہت سے لوگوں کے لیے نہ صرف صبح اٹھنا مشکل ہوتا ہے بلکہ انہیں صبح کے وقت بجنے والے الارم کو بند کرنے میں بھی دقت ہوتی ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگوں کے لیے صبح جلدی اٹھنا ایک مشکل امر ہوتا ہے۔ الارم کی آواز تکلیف دیتی ہے۔ بہت سے لوگ الارم کی پہلی آواز پر نہیں اٹھتے بلکہ الارم بند بھی کر دیتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کے لیے نہ صرف صبح اٹھنا مشکل ہوتا ہے بلکہ انہیں صبح کے وقت بجنے والے الارم کو بند کرنے میں بھی دقت ہوتی ہے۔بہت سے لوگ مختصر وقفے کے بعد الارم بجنے والے بٹن کو دباتے رہتے ہیں۔ اس بٹن کے لیے انگریزی میں ’سنوز‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔

’سنوز‘ بٹن دبانے سے الارم وقفے وقفے کے بعد بجتا ہے۔آن لائن اخبار کہتا ہے کہ سْنوز بٹن دبانے سے انسان کو فائدے کی بجائے زیادہ نقصان ہوتا ہے کیونکہ صبح کے وقت جب آپ کی آنکھ کھلتی ہے اور جس وقت بہت سے لوگ عادت سے مجبور ہر کر سْنوز کا بٹن دباتے ہیں، وہ لمحات بہت اہم ہوتے ہیں اور اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ آپ کا پورا دن کیسا گزرے گا۔ الارم کو بار بار بند کرنے اور سْنوز کا بٹن دباتے رہنے کی عادت سے چھٹکارا پانے کے لیے ماہرین روزمرہ کی زندگی میں چند تبدیلیاں لانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ان کے مطابق پرسکون اور اچھی نیند کے لیے ان طریقوں سے مدد مل سکتی ہے۔

سونے کے لیے بستر پر جانے سے پہلے دن بھر کی پریشانیوں اور مسائل کو بھول جائیے اور ان کے بارے میں ہرگز ہرگز نہ سوچیئے۔ ایسے وقت میں سونے کی کوشش کریں جب آپ تھکے ہوئے ہوں۔ ہلکا پھلکا لباس پہنیں۔ تکیے کو سرکے نیچے اس انداز میں رکھیں کہ آپ کو آرام محسوس ہو۔ روشنی بجھا دیں۔ کمرے کا درجہ حرارت ایسا ہونا چاہیے جس پر آپ سکون محسوس کریں۔ اگر بستر پر 15 منٹ تک لیٹے رہنے کے بعد بھی نیند آتی محسوس نہ ہوتو آنکھیں بند کر کے لیٹے رہنے کی بجائے کوئی ایسا کام شروع کریں جس سے ذہنی دباؤ میں کمی آئے اور آپ سکون محسوس کریں۔ مثلاً کچھ پڑھیں یا کچھ لکھیں۔ تاہم ٹیلی ویڑن دیکھنے سے احتراز کریں۔ احادیث مبارکہ میں بتائے گئے رات کو سونے سے قبل کے سنت اعمال اس ضمن میں بہترین معاون ثابت ہوتے ہیں۔ رات کی پرسکون نیند کے لیے دن کے وقت قیلولہ مختصر کریں۔

سوتے وقت سگریٹ یا تمباکو کی مصنوعات سے دور رہیں۔ بھوکے پیٹ یا بہت زیادہ کھانے کے فوراً بعد سونے کی کوشش نہ کریں۔ بہتر نیند کے لیے ضروری ہے کہ رات کا کھانا ہلکا پھلکا اور زودہضم ہو۔ باقاعدگی سے وزرش کی عادت اپنائیں اور رات کو سونے سے کم ازکم تین گھنٹے پہلے تک کوئی سخت ورزش نہ کریں۔ جلدی سونے کی عادت اپنائیے۔ اگر آپ صبح صحیح وقت پر اٹھنا چاہتے ہیں تو آپ کو جلد سونے کی عادت اپنانی چاہیئے۔ اس سے نیند کا دورانیہ درست رہتا ہے اور آپ صبح ہشاش بشاش اٹھتے ہیں۔ صبح کے وقت سست روی کا مظاہرہ کریں۔ صبح الارم کی پہلی آواز کے ساتھ اٹھنا اور تیزی سے تمام امور نمٹانا ممکن نہیں ہے۔ اپنے آپ کو وقت دیجئے، آرام سے اٹھئے اور بے شک سست روی سے اپنے کاموں کا آغاز کیجئے۔ لیکن اس کے لیے بستر سے نکلنا شرط ہے۔ صبح کی روشنی کمرے میں آنے دیجیئے۔ ایک اچھی صبح کے آغاز کے لیے ضروری ہے کہ آپ صبح اٹھ کر اپنے کھڑکی کے پردے سرکائیے اور روشنی کو اندر آنے دیجیے۔

ماہرین نے تحقیق میں یہ بات بھی نوٹ کی کہ نیند کے دوران انسان کے دماغ کے خلیے سکڑ جاتے ہیں جس کی وجہ سے مہلک مادے خارج ہونے میں زیادہ آسانی ہوتی ہے۔ نیند انسانی جسم کے لیے کتنی ضروری ہے اس پر ہمیشہ ہی زور دیا جاتا رہا ہے۔ لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ دوران ِ نیند ہمارا دماغ کس طرح سے کام کرتا ہے۔ ایک نئی تحقیق کے مطابق جب ہم سوتے ہیں تو ہمارا دماغ نہ صرف ہمیں اگلے دن کے لیے تازہ دم کر رہا ہوتا ہے بلکہ ہمیں دماغ کی بیماریوں جیسا کہ الزائمرز سے بھی بچا رہا ہوتا ہے۔ نیند ہمارے دماغ میں سے وہ مہلک مادے نکال دیتی ہے جن کی وجہ سے انسان دماغ کے مختلف مہلک امراض کا شکار ہو سکتا ہے۔

یہ تحقیق کرنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ اس تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی دماغ جاگتے ہوئے اور دوران ِ نیند مختلف امور سرانجام دیتا ہے۔ تحقیق دانوں کے مطابق انسانی دماغ منفرد انداز میں مہلک مادے خارج کرتا ہے۔ اس کے لیے وہ ’گلائیمفیٹک سسٹم‘ کا استعمال کرتا ہے۔ یہ سسٹم نیند کے دوران پورے عروج پر کام کرتا ہے، انسانی دماغ سے وہ مہلک مادے خارج کرتا ہے جو یادداشت سے متعلق بیماری الزائمرز کا سبب بنتے ہیں۔ ماہرین نے اس تحقیق میں یہ بات بھی نوٹ کی کہ نیند کے دوران انسان کے دماغ کے خلیے سکڑ جاتے ہیں جس کی وجہ سے مہلک مادے خارج ہونے میں زیادہ آسانی ہوتی ہے۔ تحقیق دانوں کے مطابق نیند کے دوران انسانی دماغ کے خلیے 60 فیصد تک سکڑ جاتے ہیں۔ خلیوں کے سکڑنے سے خلیوں کے درمیان زیادہ جگہ بن جاتی ہے، جس کی وجہ سے مہلک مادے بآسانی خارج ہو جاتے ہیں۔اس تحقیق سے یادداشت سے متعلق مرض ’الزائمرز‘ کو ٹھیک کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔‘

نیند کی کمی آنکھوں کے نیچے سیاہ دھبوں سے زیادہ نقصان کا باعث بن سکتی ہے؟ نیند کی کمی ذہنی دباؤ (Depression) اور پریشانی (Anxiety) کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق، ان لوگوں میں منفی سوچ یا برے خیالات آنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے جو8 گھنٹوں سے کم سوتے ہیں۔ یہ بات انسان میں نیند اور دماغی صحت کے آپس کے گہرے تعلق کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ محققین کے مطابق، کم نیند کی وجہ سے انسان کے دماغ میں منفی سوچ پیدا ہوجاتی ہے اور پھر یہ دوسرے لوگوں کی زندگی کو بدمزہ کرنے کا باعث بنتی ہے اور یہ منفی سوچ لوگوں کو پریشانی اور ذہنی دباؤ جیسی نفسیاتی بیماریوں کے لیے غیر محفوظ کر دیتی ہے۔

نیند پر تحقیق کرنے والے ایک ادارے کے مطابق، بیخوابی کے مریضوں کو اچھی نیند لینے والوں سے 10 گنا زیادہ ذہنی دباؤ جیسی بیماری کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے، اگر کم سونا پریشانی اور ذہنی دباؤ کا باعث بنتا ہے تو نیند کی کمی کو پورا کرنا ان وجوہات کے خاتمے میں مدد دے سکتا ہے۔ آپ خود ہی اپنے بارے میں اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آپ کو کتنی نیند کی ضرورت ہے۔ اگر آپ صبح اٹھنے کے بعد بھی تھکن محسوس کرنے ہیں تو شاید آپ کو مزید نیند کی ضرورت ہے۔ عمر کے لحاظ سے نیند سے متعلق حالیہ سفارشات کے مطابق، سکول جانے والے (6 سے 13 سال) کے بچوں کو 9 سے 11 گھنٹے، نوجوانوں (14 سے17 سال) کو 8 سے 10 گھنٹے، بالغ لوگوں (26 سے 64 سال کو 7 سے 9 گھنٹے اور عمر رسیدہ افراد (65 سال سے زیادہ عمر) کو 7 سے 8 گھنٹے نیند لینی چاہیے۔

چائے، کافی، چاکلیٹ اور سگریٹ جیسی اشیا بھی اچھی نیند میں رکاوٹ ثابت ہوتی ہیں۔ ان چیزوں کا استعمال سونے سے 4 گھنٹے پہلے ترک کر دینا چاہیے۔ روز ایک ہی وقت سونے سے بھی نیند لینے میں آسانی پیدا ہوتی ہے۔ سونے سے پہلے نہانا، کمرے میں خاموشی اور اندھیرا رکھنا اور سونے کے کمرے میں درجہ حرارت کم رکھنا اچھی نیند کے لیے کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر ہو سکے تو اپنے فون اور اس جیسے دوسرے آلات کو اپنی آنکھوں سے دور رکھ کر سونے کی کوشش کریں۔ یہ طریقہ اچھی اور مسلسل نیند کے لیے کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔

نیند کا علاج نیند لانے کی گولیاں اور دوائیں نہیں بلکہ زندگی گذارنے کے انداز میں تبدیلی لانا ہے۔ تاہم کم خوابی اور بے خوابی کی شدید صورتوں میں ڈاکٹر سے مشورہ ضروری ہوتاہے۔ جدید سائنسی دور جہاں انسان کے لیے بیشمارآسائشیں اور سہولتیں لایا ہے وہاں نئی ایجادات نے اکثر لوگوں کو پرسکون نیند کے لطف سے بھی محروم کردیا ہے۔ آپ کو اپنے اردگرد بہت سے لوگ نیند نہ آنے کی شکایت کرتے نظر آئیں گے۔ اور جو زبان سے یہ شکایت نہیں کرتے ، ان کی جسمانی کیفیت دیکھ کر آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کی آنکھیں اچھی نیند سے محروم ہیں۔ ایسے افراد یا تو اونگھتے ہوئے یا پھر تھکے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

نیند کی کمی یا بے خوابی کا تعلق بہت سی چیزوں سے ہے۔ بعض دائمی امراض بھی بے خوابی کا سبب بن جاتے ہیں۔ مثلاً ذیابیطس ، ذہنی دباؤ، موٹاپے اور دل کے امراض میں مبتلا افراد اکثر نیند کی کمی کی شکایت کرتے پائے گئے ہیں۔ نیند کی کمی سے انسان نہ صرف دن بھر سست رہتا ہے اور اپنی ذمہ داریاں بہتر طورپر انجام نہیں دے پاتا بلکہ کم خوابی سڑکوں پر ہونے والے کئی مہلک حادثوں کی وجہ بھی بنتی ہے۔ اسی طرح کئی بار مشینوں پر کام کرنے والے بے خوابی کے مریض سنگین حادثات کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ ایک حالیہ جائزے سے ظاہر ہواہے کہ تقریباً دس فی صد افراد شدید بے خوابی کے مرض میں مبتلا ہیں اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔

ماہرین کا کہناہے کہ نیند عیاشی نہیں ہے بلکہ انسان کی ایک اہم ترین بنیادی ضرورت ہے۔ کم خوابی اور بے خوابی کی شدید صورتوں میں ڈاکٹر سے مشورہ ضروری ہوتاہے کیونکہ بعض عوارض بھی نیند میں کمی کا سبب بنتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بے خوابی کی وجہ سوتے میں سانس لینے پیش آنے والی رکاوٹیں ہوں تو ڈاکٹر سے مشورہ کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ سوتے میں آنکھ کھلنے کی وجہ پوری مقدار میں آکسیجن کا نہ ملنا ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں بعض سنگین نتائج سامنے آسکتے ہیں جن میں آکسیجن کی کمی کے باعث دماغ کی کارکردگی کا متاثر ہونا، نیم بے ہوشی طاری ہونا ، خون کا زیادہ دباؤ اور دل کی بیماریاں شامل ہیں۔

کئی مطالعاتی جائزوں سے ظاہر ہوا ہے کہ ٹین ایجرز اتنا وقت نہیں سوتے جتنی کہ انہیں ضرورت ہوتی ہے جس کے نتیجے میں ان کی پڑھائی اور صحت دونوں متاثر ہوتے ہیں۔ ایک نئی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ روشنی کی مقدار اور اس کے بعض رنگ نیند کو بہتر بنانے میں مفید کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ٹین ایجرز پر کیے جانے والے ایک مطالعاتی جائزے میں ان کی سونے کی عادات کیے ساتھ ساتھ اس حوالے سے بھی تحقیق کی گئی کہ زرد رنگ کی روشنی ان کے سونے کے اوقات کو اس طرح متاثر کرتی ہے۔کچھ والدین اپنے بچوں کو رات کے وقت سونے میں مدد کے لیے انہیں دوائیں دیتے ہیں لیکن اپنی تحقیق کے ذریعے یہ جاننا چاہتے تھے کہ آیا اس سلسلے میں کوئی زیادہ بہتر قدرتی متبادل موجود ہے۔ تحقیقی جائزوں سے ظاہر ہوا ہے کہ تقریباً 13 سال کی عمر میں سونے کے انداز میں نمایاں تبدیلی شروع ہو جاتی ہے۔

اس وقت جسم کے اندر موجود وقت کا اندازہ لگانے والا قدرتی نظام یا بایولاجیکل کلاک نئے سرے سے سیٹ ہوتا ہے اور نیند لانے میں مدد دینے والا ہارمون میلاٹونن (melatonin) دن کے بعد کے حصے میں پیدا ہوتا ہے اور روشنی اس مخصوص ہارمون کو متاثر کرتی ہے۔ ان مطالعاتی جائزے کا مقصد ٹین ایجرز کو جلد سونے کی طرف مائل کرنے کے لیے روشنی کے استعمال سے ان کے نیند کے مراحل اور انداز پر روشنی کے اثرات کو سمجھنے کی کوشش کرنا تھا۔ اس جائزے سے معلوم ہوا کہ اگر ٹین ایجرز زیادہ وقت صبح کی روشنی میں رہیں، خاص طور پر نیلے رنگ کی شعاعوں میں، تو ان کے سونے کا پرانا سسٹم یا ان کا باڈی کلاک بحال ہو سکتا ہے اور انہیں ایک بار پھر نیند پرانے وقت پر آسکتی ہے۔

نیلے رنگ کی روشنی کی شعاعیں ٹین ایجرز کے اندرونی جسمانی نظام کی رفتار کو دن اور رات کے قدرتی اوقات سے ایک بار پھر ہم آہنگ کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ صبح کی قدرتی روشنی نہ ملنے کی صورت میں عمومی طور پر طالب علم رات کو دیر سے سوتے ہیں۔ جائزے سے یہ بھی پتا چلا کہ سہ پہر کی دھوپ بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس جائزے سے صرف یہی ظاہر نہیں ہوا کہ صبح کی روشنی ٹین ایجرز کو اپنی نیند کے پرانے وقت پر سونے میں مدد کے لیے اہم ہے بلکہ اس سلسلے میں رات کو کمرے میں جلائی جانے والی روشنی میں کمی بھی اہمیت رکھتی ہے۔ اس لیے سہ پہر کے وقت نیلی شعاعوں کو روکنے کے لیے زرد رنگ کے شیشوں کی عینکوں کا استعمال بھی فائدہ مند ہو سکتا ہے۔

نوجوان طالب علموں کے لیے صبح کی روشنی کی مقدار میں اضافہ کر کے ان میں سونے کی اچھی عادات پیدا کرنے میں اسکول اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اور وہ اس طرح کہ یا تو کلاس کے کمروں کو زیادہ روشن بنا دیا جائے یا صبح کے وقت انہیں کلاسوں سے باہر کھلی جگہ پر کچھ وقت گزارنے کی سہولت دی جائے۔

The post کم خوابی کا تیزی سے پھیلتا ہوا مرض appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2nqrth4

پٹرول کی بڑھتی قیمت پر عوام برہم

پٹرول بم گرانے پر عوام سوال پوچھ رہے ہيں کہ ايک اور بم برداشت کرنا پڑے گا۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ جاتے جاتے حکومت پیسے اکٹھے کررہی ہے، اگلے انتخابات میں انہیں کوئی ووٹ نہیں دیگا۔ مزید کیا کہنا ہے عوام کا آپکو سنواتے ہیں

The post پٹرول کی بڑھتی قیمت پر عوام برہم appeared first on Samaa Urdu News.



from Samaa Urdu News http://ift.tt/2EpZCEN

اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل؛ خالد لطیف پر پابندی کا فیصلہ برقرار

لاہور: پي ايس ايل اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل میں ملوث خالد لطیف پر پانچ سالہ پابندی کا فیصلہ برقرار، جبکہ دس لاکھ روپے جرمانہ ختم کر دیا گیا۔ خالد لطیف کیس کا فیصلہ غیر جانبدار ثالث جسٹس فقیر محمد کھوکھر نے سنایا۔ پی سی بی ٹریبونل نے جرم ثابت ہونے پر خالد لطیف پر پانچ سال...

The post اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل؛ خالد لطیف پر پابندی کا فیصلہ برقرار appeared first on Samaa Urdu News.



from Samaa Urdu News http://ift.tt/2DP1yFY

اسکول بند کرنے کیلئے دھمکیاں، چیف جسٹس نے نوٹس لے لیا

اسلام آباد : چیف جسٹس نے کراچی میں این جی او کو اسٹریٹ اسکول حوالے کرنے کیلئے دھمکیوں کا نوٹس لے لیا۔ سندھ حکومت فلائی اوور کے نیچے قائم اسکول حوالے نہ کرنے پر پولیس ایکشن کی دھمکیاں دے رہی ہے۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کراچی میں فلاحی تنظیم کو فٹ پاتھ...

The post اسکول بند کرنے کیلئے دھمکیاں، چیف جسٹس نے نوٹس لے لیا appeared first on Samaa Urdu News.



from Samaa Urdu News http://ift.tt/2EpZjtD

گردوں کے کاروبار کا مقدمہ گواہان کی تلاش

شیخو پورہ کے رہائشی سعدی احمد پرامید ہیں کے جمعرات کو راولپنڈی کی سیشن کورٹ میں ان کا بیان ریکارڈ کر لے جائے گا اور کڈنی سینٹر کیس میں انہیں جلد انصاف ملے گا۔

from BBC Urdu - پاکستان http://ift.tt/2nqXIvA

مشتاق غنی کے بھائی کے گھر بچی کی ہلاکت، سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس

اسلام آباد:  چیف جسٹس آف پاکستان نے کے پی کے میں صوبائی وزیر مشتاق غنی کے بھائی کے گھر ملازمہ بچی کی ہلاکت کا نوٹس لیتے ہوئے فوری رپورٹ طلب کرلی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے خیبر پختون خوا کے علاقے ایبٹ آباد میں صوبائی وزیر اطلاعات مشتاق غنی کے بھائی شعیب غنی کے گھر میں ایک بچی کی ہلاکت کے معاملے کا نوٹس لے لیا۔

یہ نوٹس انہوں نے میڈیا میں کیس سامنے آنے کے بعد لیا ہے جس میں انہوں ںے آئی جی کے پی کے سے واقعے کی تحقیقاتی رپورٹ تین دن میں طلب کرلی۔

خیال رہے کہ جاں بحق ہونے والی کمسن بچی صوبائی وزیر کے گھر اپنی بڑی بہن کے ساتھ ملازمت کرنے جاتی تھی یک دم بغیر کسی وجہ کے اس کی ہلاکت کی خبریں میڈیا میں سامنے آئیں۔ آئی جی کے پی کے نے بچی کی ہلاکت کی تحقیقات کا پہلے سے حکم دیا ہوا ہے۔

پولیس کا موقف ہے بچی کی طبعیت کچھ کھانے سے خراب ہوئی جس کے بعد اسے اسپتال منتقل کیا گیا تاہم وہ جانبر نہ ہوسکی۔

چیف جسٹس کا سندھ حکومت کی فٹ پاتھ اسکول کو دھمکیوں کا بھی نوٹس

دریں اثنا چيف جسٹس مياں ثاقب نثار نے كراچی ميں ايك اين جی او اوشيئن ويلفيئر آرگنائزيشن كو اسٹريٹ چلڈرن كے لیے چلايا جانے والا اسكول سندھ حكومت كے حوالے كرنے كی دھمكيوں كا نوٹس لیا ہے اور چيف سيكرٹری سندھ سے 5روز ميں رپورٹ طلب كرلی۔

عدالتی اعلاميے كے مطابق كراچی ميں حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ كے مزار كے قريب كلفٹن فلائی اوور كے نيچے 2000 اسٹريٹ چلڈرن کے لیے قائم اسكول كی انتظاميہ كو سندھ حكومت نے كہا تھا كہ يہ اسكول سندھ ايجوكيشن فائونڈيشن كو ديا جائے يا اسے يہاں سے منتقل كيا جائے۔

يہ بھی دھمكی دی گئی تھی كہ اگر اين جی او نے اسكول سندھ ايجوكيشن فاؤنڈيشن كو نہ ديا تو اس كے خلاف پوليس فورس استعمال كی جائے گی۔ چيف جسٹس نے نوٹس ليتے ہوئے چيف سيكرٹری سے 5 روز ميں رپورٹ طلب كرلی ہے۔

The post مشتاق غنی کے بھائی کے گھر بچی کی ہلاکت، سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2nqoG7A

برفانی تودے گرنے کا خدشہ، پی ڈی ایم اے کا ریڈ الرٹ جاری

اسلام آباد : بالائی علاقوں ميں زلزلے کے بعد برفانی تودے گرنے کے خدشے کے پیش نظر پی ڈی ایم اے نے ريڈ الرٹ جاری کردیا۔ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے زلزلے کے بعد ريڈ الرٹ جاری کرديا، پی ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ ملک کے بالائی علاقوں میں زلزلے کے باعث برفانی...

The post برفانی تودے گرنے کا خدشہ، پی ڈی ایم اے کا ریڈ الرٹ جاری appeared first on Samaa Urdu News.



from Samaa Urdu News http://ift.tt/2GzlGh9

شاخِ زیتون آپریشن، ترک فوج کا 712 دہشت گرد ہلاک کرنے کا دعویٰ

انقرہ : ترک مسلح افواج نے شاخِ زیتون فوجی کارروائی میں 22 اہداف کو نشانہ بنانے اور 712 دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ترک میڈیا کے مطابق مسلح افواج کے ہیڈ کوارٹر کی جاری سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ شاخ زیتون آپریشن کے دوران پی کے کے، پی...

The post شاخِ زیتون آپریشن، ترک فوج کا 712 دہشت گرد ہلاک کرنے کا دعویٰ appeared first on Samaa Urdu News.



from Samaa Urdu News http://ift.tt/2BHbtLT

پولیس اہلکاروں کے راؤ انوار کو مفید مشورے

قانون کے محافظ، قانون سے ڈرنے لگے۔ ايسے ميں راؤ انوار کو پيٹي بند بھائيوں نے کيا مشورہ ديا ہے۔ آپ کو بھي سنواتے ہيں۔

The post پولیس اہلکاروں کے راؤ انوار کو مفید مشورے appeared first on Samaa Urdu News.



from Samaa Urdu News http://ift.tt/2DQW0uF

پاکستان میں ہر جماعت موروثی سیاست کررہی ہے۔

پاکستان میں عموماً موروثی سیاست کے نام پر ایک دوسرے پر لعن طعن کی جاتی ہے مگر یہ اندازِ سیاست پورے سماج میں پھیلا ہوا ہے۔

from BBC Urdu - پاکستان http://ift.tt/2E0jC3b

شیخ رشید کا استعفیٰ سے متعلق یوٹرن

اسلام آباد: سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید نے قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا فیصلہ واپس لے لیا۔ اسلام آباد میں صحافی کے استعفیٰ جمع کرانے کے سوال پر شیخ رشید نے کہا کہ اب ضرورت نہیں کیونکہ وقت گزر گیا ہے۔ اپنی طبیعت سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ اپنڈکس آپریشن...

The post شیخ رشید کا استعفیٰ سے متعلق یوٹرن appeared first on Samaa Urdu News.



from Samaa Urdu News http://ift.tt/2Et3dlJ

اعصام الحق 2018 کے 10 بہترین کھلاڑیوں میں شامل ہونے کیلئے پرامید

 اسلام آباد: پاکستانی ٹینس اسٹار اعصام الحق نے کہا کہ وہ رواں سال عالمی رینکنگ میں ٹاپ 10 کھلاڑیوں میں شامل ہونے کیلئے پرامید ہیں۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے اعصام الحق نے کہا کہ وہ اور عقیل خان کافی عرصہ سے ڈیوس کپ ٹائی میں پاکستان کے لئے کھیل رہے ہیں، کوریا کے خلاف ٹائی میں وہ اور عقیل خان ٹیم کی جیت میں اہم کردار ادا کریں گے۔ جنوبی کوریا کی ٹیم بہترین کھلاڑیوں پر مشتمل ہے، ان کے ساتھ کانٹے دار مقابلے کی توقع ہے تاہم میزبان ہونے اور گراس کورٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قومی ٹیم کوریا کے خلاف شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرکے کامیابی حاصل کرے گی۔

پاکستانی ٹینس اسٹار نے کہا کہ آسٹریلین اوپن مینز ڈبلز کے کوارٹر فائنل تک رسائی حاصل کرنے کے بعد عالمی رینکنگ میں 32 سے 30ویں پوزیشن پر واپس آگیا ہوں اور اب رواں سال مختلف بین الاقوامی ڈبل مقابلوں میں عمدہ کھیل پیش کرکے ٹاپ ٹین میں جگہ بنانے کی بھرپور کوشش کروں گا۔

واضح رہے کہ پاکستان اور جنوبی کوریا کے درمیان ڈیوس کپ ٹائی 2 اور 3 فروری کو پاکستان اسپورٹس کمپلیکس اسلام آباد میں کھیلی جائے گی، اس سلسلے میں کورین ٹیم پاکستان بھی پہنچ چکی ہے۔

 

The post اعصام الحق 2018 کے 10 بہترین کھلاڑیوں میں شامل ہونے کیلئے پرامید appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2GzKXaE

فرانس میں معروف مسلم اسکالر خواتین سے زیادتی کے الزام میں گرفتار

پیرس: فرانسیسی پولیس نے یورپ کے معروف مسلمان اسکالر طارق رمضان کو خواتین سے زیادتی کے الزام میں گرفتار کرلیا ۔

غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق طارق رمضان سوئٹزر لینڈ کے شہری ہیں اور برطانیہ کی معروف آکسفورڈ یونیورسٹی میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ 3 ماہ قبل فرانس کی دو خواتین نے طارق رمضان پر زیادتی کا الزام لگایا تھا، طارق رمضان پوچھ گچھ کے لیے فرانسیسی پولیس کے سامنے پیش ہوئے ، جہاں انہیں حراست میں لے لیا گیا۔

طارق رمضان نے اپنے او پر لگائے گئے الزامات کی تردید کی ہے، انہوں نے الزام لگانے والی 2 خواتین میں سے ایک پر ہتک عزت کا دعویٰ بھی کررکھا ہے۔

واضح رہے کہ طارق رمضان مصر میں اخوان المسلمون نامی اسلامی تحریک کی بنیاد رکھنے والے معروف اسکالر حسن البناء کے پوتے ہیں اس لئے انہیں مشرق وسطیٰ میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

The post فرانس میں معروف مسلم اسکالر خواتین سے زیادتی کے الزام میں گرفتار appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2EooFYN

دیپیکا، رنویر کی جوڑی نے ایک بار پھر دھوم مچادی

ممبئی : بالی ووڈ کی متنازع فلم پدماوت 100 کروڑ کلب میں شامل ہوگئی، دیپیکا پڈوکون، رنویر سنگھ اور شاہد کپور کی فلم نے 5 دنوں میں 129 کروڑ روپے کمالئے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق سنجے لیلا بھنسالی کی فلم ’’پدماوت‘‘ مشکلات کے بعد 25 جنوری کوسنیما گھروں کی زینت بنی، فلم نے باکس آفس...

The post دیپیکا، رنویر کی جوڑی نے ایک بار پھر دھوم مچادی appeared first on Samaa Urdu News.



from Samaa Urdu News http://ift.tt/2rYfxru

وزیر خیبرپختونخوا کے بھائی کے گھر ملازمہ کی ہلاکت پر چیف جسٹس کا نوٹس

اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ایبٹ آباد میں صوبائی وزیر کے بھائی کے گھر کمسن ملازمہ کی ہلاکت کا ازخود نوٹس لے لیا۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس نے آئی جی خیبرپختونخوا سے 3 روز میں رپورٹ طلب کرلی۔ پولیس نے بچی کی ہلاکت کو بغیر کسی تصدیق اور پوسٹ...

The post وزیر خیبرپختونخوا کے بھائی کے گھر ملازمہ کی ہلاکت پر چیف جسٹس کا نوٹس appeared first on Samaa Urdu News.



from Samaa Urdu News http://ift.tt/2ErGTsl

حکومت نے مسلسل چوتھی بار عوام پر پیٹرول بم گرادیا

اسلام آباد : حکومت نے ایک بار پھر عوام پر پیٹرول بم گرادیا، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں 5 روپے 98 پیسے فی لیٹر تک بڑھادی گئیں، پیٹرول 2 روپے 98 پیسے فی لیٹر مہنگا کردیا گیا۔ ن لیگ حکومت نے مسلسل چوتھی بار پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھادیں، اوگرا کی پونے 16 روپے فی لیٹر...

The post حکومت نے مسلسل چوتھی بار عوام پر پیٹرول بم گرادیا appeared first on Samaa Urdu News.



from Samaa Urdu News http://ift.tt/2rVkIs4

انجلیناجولی کی روہنگیا خواتین سے زیادتی کی مذمت

ٹورنٹو:  ہالی ووڈ اداکارہ انجلینا جولی نے میانمار میں روہنگیا خواتین سے زیادتی کی مذمّت کرتے ہوئے ان سے ملنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔

بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق ہالی ووڈ کی سپراسٹار اور پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی ایلچی انجلینا جولی نے کینیڈا کے شہر وینکوور میں بنگلادیش کے ایک وفد سے ملاقات کی ہے جس میں انہوں نے میانمار میں بدھ انتہا پسندوں اور فوج کی چیرہ دستیوں کا شکار روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا ہے۔

یہ خبر بھی پڑھیں: انجلینا جولی کا اپنی زندگی کے حوالے سے اہم انکشاف

بنگلا دیش کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ انجلینا جولی نے روہنگیا خواتین سے زیادتی کی ناصرف شدید مذمّت کی بلکہ ان ستم رسیدہ خواتین سے ملاقات کا ارادہ بھی ظاہر کیا ہے۔

واضح رہے کہ میانمار کے علاقے راکھین میں بدھ انتہا پسندوں اور فوج نے روہنگیا مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں، لاکھوں لوگ بنگلا دیش کے پناہ گزین کیمپوں میں موجود ہیں جن میں سے ہزاروں خواتین ایسی بھی ہیں جو فوج اور بدھ انتہا پسندوں کے ہاتھوں جنسی زیادتی کا شکار ہوئی ہیں۔

The post انجلیناجولی کی روہنگیا خواتین سے زیادتی کی مذمت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2BGYZDU

اسلام آباد کے گیسٹ ہاؤس سے ڈاکٹر اور لڑکی کی لاش برآمد

 اسلام آباد: اسلام آباد کے گیسٹ ہاؤس سے  ڈاکٹر اور لڑکی کی لاشیں ملی ہیں۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق وفاقی دارالحکومت میں تھانہ شالیمار کی حدود میں واقع گیسٹ ہاؤس سے دو افراد کی لاشیں ملی ہیں،پولیس کا کہنا ہے کہ اطلاع ملنے پر جب کمرے کا دروازہ کھولا گیا تو اندر سے بدبو آرہی تھی،لاشوں کو ایمبولنس کے ذریعے پمز اسپتال منتقل کردیا گیا جب کہ کمرے سے ابتدائی شواہد اکٹھے کرکےمہمان خانے کی انتظامیہ سے پوچھ گچھ اور ان کے بیانات ریکارڈ کر لیے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ لاشوں کی شناخت ہوگئی ہے جس میں مرد کا نام رانا آفتاب ہے جو آنکھوں کے معروف ڈاکٹر ہیں اور اسلام آباد کے مختلف اسپتالوں میں امراضِ چشم  کے ماہر کے طور پر کام کرتے ہیں جب کہ لڑکی کا نام زوبدہ ہے جس کا تعلق گولڑہ سے ہے۔

بعدازاں پمزاسپتال میں لاشوں کا پوسٹمارٹم مکمل کرلیا گیا ۔پمز میڈیکو لیگل آفیسر ڈاکٹر نسرین بٹ کے مطابق پوسٹمارٹم رپورٹ میں دونوں کے معدے میں شراب کی کثیرمقدار پائی گئی، اس کے ساتھ ساتھ معدے میں مقوی گولیوں کی بڑی مقدار بھی پائی گئی ہے جب کہ دونوں کے معدے میں گیس کی کچھ مقدار بھی پائی گئی ہے، دونوں کے معدے سے نمونے لے کر لاہور لیبارٹری بھجوادئیے گئے۔

The post اسلام آباد کے گیسٹ ہاؤس سے ڈاکٹر اور لڑکی کی لاش برآمد appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2rXImUM

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ

 اسلام آباد: حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ کردیا ہے۔

وزارت خزانہ کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق عالمی مارکیٹ میں خام کی قیمتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے فروری کے لیے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں رد و بدل کیا گیا ہے۔ یکم فروری 2018 سے پیٹرول کی قیمت 2 روپے 98 پیسے اضافے کے بعد 84 روپے51 پیسے فی لیٹر ہوگی۔

نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت 5 روپے 93 پیسے اضافے کے بعد 64 روپے 30 پیسے، ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت 5 روپے 92 پیسے اضافے کے بعد 95 روپے 83 پیسے جب کہ مٹی کے تیل کی نئی قیمت 5 روپے 94 پیسے اضافے کے بعد 70 روپے 26 پیسے فی لیٹر کردی گئی ہے۔

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ملک کے مختلف علاقوں میں پیٹرول پمپس پر پیٹرول اور ڈیزل کی فروخت روک دی گئی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

The post پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2BHNXOz