Subscribe

Theme images by Storman. Powered by Blogger.

About

Top Ad 728x90

Top Ad 728x90

Featured Post Via Labels

Top Ad 728x90

Featured Slides Via Labels

Featured Posts Via Labels

More on

Popular Posts

Blog Archive

Popular Posts

Follow us on FB

Wednesday 31 January 2018

ہیلن کیلر کون تھی؟

ماضی کی نسبت موجودہ دور میں بچوں کے رسائل اور ان کے لیے لکھنے والوں ادیبوں کی کمی شدت سے محسوس کی جا سکتی ہے۔ والدین کو یہ شکایت ہے کہ ان کے بچے کتابوں کے لیے وقت نکالنے کے بجائے اپنے قیمتی روزوشب کمپیوٹر پر بیٹھ کر سوشل میڈیا کی نذرکررہے ہیں، مگر اب بھی ایسے بچوں کی کمی نہیں جوکتابوں کے سہارے اپنی درس گاہوں سے بہترین نمبروں کے ساتھ کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں۔ ہاں یہ ضرورہوا کہ ماضی کی نسبت موجودہ دور میں لائبریریاں نہ ہونے کے برابر ہیں جہاںکتابوں سے محبت کرنے والے بچے اور بڑے معمولی سی ممبر شپ کے بدلے اچھی اور نئی کتابیں با آسانی پڑھ سکتے تھے۔

اردو زبان میں چھپنے والے بچوں کے اہم رسائل میں’نونہال‘ اور ’تعلیم و تربیت‘ نے جہاں بچوں کی تربیت میں بھر پور کردار ادا کیا وہاں بچوں کے کئی دیگر رسائل اب بھی ملک کے بڑے بڑے بک اسٹالز پر نظر آ ہی جاتے ہیں، لیکن بچوں کو ان کی طرف راغب کرنا والدین اور اساتذہ کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

پاکستان کی دوسری زبانوں پر نظر ڈالی جائے تو سوائے سندھی زبان میں چھپنے والے رسائل کے پشتو اور بلوچی زبان میں بچوں کے رسائل نہ ہونے کے برابر ہیں ہاں لاہور سے اشرف سہیل کی ادارت میں پچھلے تیئس سال سے پنجابی زبان میں بچوں کے لیے ’’پکھیرو‘‘ نامی رسالہ اپنی اشاعت مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے جس سے یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ اردو کی طرح ملک کی دوسری زبانوں میں بھی اگر بچوں کے رسائل پر توجہ دی جائے تو بچوں کا ایسا حلقہ وجود میں آسکتا ہے جو اپنی تہذیب و ثقافت کے ساتھ دنیا کی مشہور شخصیتوں کے کارناموں اور ان کے بچپن سے بھی واقف ہوسکتا ہے۔

عام بچوں کی تعلیم و تربیت کے مسائل تو اپنی جگہ مگر ایسے بچوں کے بارے میں سوچیے جو پیدائشی طور پر دیکھنے اور سننے کی صلاحیت سے محروم ہوں یا بعد میں پیش آنے والے کسی حادثے کی وجہ سے اپنی قوت بصارت اور سماعت کھو بیٹھے ہوں ۔ ذہنی اور جسمانی معذوری کا شکار بچوں کے لیے یوں تو ملک میںچند ایسے ادارے موجود ہیں جہاں بچوں کی تعلیم کا مناسب انتظام کیا جاتا ہے، مگر ایسے اداروں کی اب بھی کمی محسوس کی جا تی ہے جو جدید تعلیم سے آراستہ سائنسی بنیادوں پر معذور بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا انتظام کرسکیں۔ بہت سارے معذور بچے اپنے والدین کی بے خبری اور نا سمجھی کی وجہ سے ایسے اداروں تک نہیں پہنچ پاتے، جہاں ان کی زندگی میں تبدیلیاں لانے کی کوشش کی جاسکے جس کی وجہ سے وہ پوری زندگی اسی معذوری میں بسر کردیتے ہیں ۔

والدین کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ اگر ہم اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا بہترانتظام کریں تو وہ امریکا میں پیدا ہونے والی ہیلن کیلر کی طرح پوری دنیا کو اپنی صلاحیتوں کا گرویدہ بنا سکتے ہیں۔

ہیلن کیلر دو سال کی عمر میں دیکھنے اور سننے کی صلاحیت سے محروم ہو گئی تھیں لیکن ان کے گھر والوں نے ان کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک ایسی استانی کا انتظام کیا جو ان کی زندگی میں بہار بن کرآئی اور وہ معذورلڑکی جس کی زندگی میں سوائے اندھیرے کے کچھ بھی نہیں تھا، ایک ایسی پڑھی لکھی ماہر تعلیم، سماجی کارکن اور مصنفہ کی صورت میں دنیا کے سامنے آئی جس نے اپنی صلاحیتوں سے اس بات کو جھوٹ ثابت کردیا کہ سماعت اور بصارت سے محروم افراد دوسروں کے سہارے زندہ رہنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے ۔ گیر تھامپسن کا شمار امریکا کے ایسے مصنفین میں ہوتا ہے جو تھیٹرکے ساتھ وابستگی کے علاوہ ، میڈیا اور تعلیم کے مختلف شعبوں پر بھی کتابیں تحریرکرچکے ہیں ۔ بنیادی طور پر وہ ایک ماہر تعلیم ہیں مگر بچوں کے لیے کتابیں تحریر کر نا بھی ان کی دل چسپی میں شامل ہے۔

Who was Helen keller ?کے عنوان سے معروف امریکی مصنفہ ہیلن کیلر پر لگ بھگ بارہ برس قبل ان کی ایک مختصر سی کتاب سامنے آئی تھی جس میں ہیلن کیلر کی پیدائش، ابتدائی زندگی، بیماری اور معذوری سے لے کر حصول تعلیم اور بول چال تک کے تمام مراحل کو انتہائی سادہ انداز میں بیان کیا گیا تھا۔ اس کتاب میں ہیلن کیلر کی زندگی اور جد وجہد کو اس انداز سے سامنے لایا گیا ہے کہ پڑھنے والوں میں ہمت، حوصلے اور جینے کی خواہش بیدارہوتی ہے۔

ڈاکٹر کرامت مغل نے پاکستانی بچوں کو ہیلن کیلر سے متعارف کروانے کے لیے اس کتاب کا نہ صرف شان دار ترجمہ کیا ہے بلکہ انتہائی خوب صورت ٹائٹل کے ساتھ اسے چھاپ کر کتابوں سے محبت کرنے والوں کے سامنے پیش کر دیا ہے۔

ڈاکٹرکرامت مغل کا شمار ایسے ادیبوں میں ہوتا ہے جنہوں نے انگریزی کی بہترین کہانیوں کو پنجابی میں ترجمہ کیااور جدیدتنقیدی رویوں کا ساتھ نبھاتے ہوئے مختلف تخلیقات پر انتہائی مدلل انداز میں تنقیدی مضامین بھی تحریرکیے، لیکن ان کی اس سے بھی بڑی پہچان ان کی تحریر کردہ کہانیاں ہیں جن میں ہمارے معاشرے کی سماجی ٹوٹ پھوٹ کے ساتھ اس صدی کے انسانوں کی انفرادی آزادی کے مسائل کو بھی انتہائی بہترین ڈھنگ کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔

ڈاکٹر کرامت مغل نے ہیلن کیلرکی زندگی اور کارناموں پر مبنی اس کتاب کا ترجمہ جس سادہ اور دل چھو لینے والے انداز کیا ہے، اسے دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پڑھنے والے اس کتاب کو کسی بہترین تحفے سے کم نہ پائیں گے۔ کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ بچوں کے لیے تحریر کی گئی ہے لیکن پڑھتے وقت کہیں بھی اس بات کا گمان نہیں ہوتا کہ بڑی عمرکے افراد اس سے استفادہ نہیںکرسکتے ۔

دوسری اہم بات یہ ہے اس سے قبل ہیلن کیلر کی زندگی کے بارے میں ہماری نظروں سے جو چیدہ چیدہ مضامین گزرے ہیں، ان میں کچھ تضادات کے ساتھ سنی سنائی اور سطحی تحقیق کا بھی اشارہ ملتا ہے مگر اس کتاب کو پڑھنے کے بعد ہیلن کیلر کی پوری زندگی کو انتہائی اچھے طریقے سے سمجھا جا سکتا ہے۔

The post ہیلن کیلر کون تھی؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2rVBdV9

No comments:
Write comments