Subscribe

Theme images by Storman. Powered by Blogger.

About

Top Ad 728x90

Top Ad 728x90

Featured Post Via Labels

Top Ad 728x90

Featured Slides Via Labels

Featured Posts Via Labels

More on

Popular Posts

Blog Archive

Popular Posts

Follow us on FB

Wednesday 31 January 2018

مشتاق غنی کے بھائی کے گھر بچی کی ہلاکت، سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس

اسلام آباد:  چیف جسٹس آف پاکستان نے کے پی کے میں صوبائی وزیر مشتاق غنی کے بھائی کے گھر ملازمہ بچی کی ہلاکت کا نوٹس لیتے ہوئے فوری رپورٹ طلب کرلی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے خیبر پختون خوا کے علاقے ایبٹ آباد میں صوبائی وزیر اطلاعات مشتاق غنی کے بھائی شعیب غنی کے گھر میں ایک بچی کی ہلاکت کے معاملے کا نوٹس لے لیا۔

یہ نوٹس انہوں نے میڈیا میں کیس سامنے آنے کے بعد لیا ہے جس میں انہوں ںے آئی جی کے پی کے سے واقعے کی تحقیقاتی رپورٹ تین دن میں طلب کرلی۔

خیال رہے کہ جاں بحق ہونے والی کمسن بچی صوبائی وزیر کے گھر اپنی بڑی بہن کے ساتھ ملازمت کرنے جاتی تھی یک دم بغیر کسی وجہ کے اس کی ہلاکت کی خبریں میڈیا میں سامنے آئیں۔ آئی جی کے پی کے نے بچی کی ہلاکت کی تحقیقات کا پہلے سے حکم دیا ہوا ہے۔

پولیس کا موقف ہے بچی کی طبعیت کچھ کھانے سے خراب ہوئی جس کے بعد اسے اسپتال منتقل کیا گیا تاہم وہ جانبر نہ ہوسکی۔

چیف جسٹس کا سندھ حکومت کی فٹ پاتھ اسکول کو دھمکیوں کا بھی نوٹس

دریں اثنا چيف جسٹس مياں ثاقب نثار نے كراچی ميں ايك اين جی او اوشيئن ويلفيئر آرگنائزيشن كو اسٹريٹ چلڈرن كے لیے چلايا جانے والا اسكول سندھ حكومت كے حوالے كرنے كی دھمكيوں كا نوٹس لیا ہے اور چيف سيكرٹری سندھ سے 5روز ميں رپورٹ طلب كرلی۔

عدالتی اعلاميے كے مطابق كراچی ميں حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ كے مزار كے قريب كلفٹن فلائی اوور كے نيچے 2000 اسٹريٹ چلڈرن کے لیے قائم اسكول كی انتظاميہ كو سندھ حكومت نے كہا تھا كہ يہ اسكول سندھ ايجوكيشن فائونڈيشن كو ديا جائے يا اسے يہاں سے منتقل كيا جائے۔

يہ بھی دھمكی دی گئی تھی كہ اگر اين جی او نے اسكول سندھ ايجوكيشن فاؤنڈيشن كو نہ ديا تو اس كے خلاف پوليس فورس استعمال كی جائے گی۔ چيف جسٹس نے نوٹس ليتے ہوئے چيف سيكرٹری سے 5 روز ميں رپورٹ طلب كرلی ہے۔

The post مشتاق غنی کے بھائی کے گھر بچی کی ہلاکت، سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2nqoG7A

No comments:
Write comments